1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان اور افغانستان: مشرف جوابی اقدامات کے حامی

27 اکتوبر 2011

پاکستان کے سابق صدر مشرف نے کہا ہے کہ اگر امريکی فوج نے افغانستان کو غير مستحکم يا بھارت کے بہت زيادہ زير اثرحالت ميں چھوڑا، تو پاکستان کے خفيہ اداروں کو افغانستان کی اس صورتحال سے نمٹنے کے ليے جوابی اقدامت کرنا ہوں گے۔

https://p.dw.com/p/13009
پرويز مشرف
پرويز مشرفتصویر: AP

مشرف نے واشنگٹن کے ايک دورے ميں امريکہ اور پاکستان کے تعلقات کو بہت کشيدہ قرار ديا ليکن اُنہوں نے پاکستانی خفيہ سروس آئی ايس آئی کا دفاع کيا، جس پر امريکی حکام اور خود بعض طالبان کی طرف سے بھی طالبان کی مدد کرنے کے الزامات لگائے جا رہے ہيں۔

سن 2008 ميں استعفٰی دينے کے بعد پرويز مشرف جلاوطنی کی زندگی گذار رہے ہيں۔ انہيں اگلے سال ميدان سياست ميں دوبارہ داخل ہونے کی اميد ہے۔ اُنہوں نے واشنگٹن ميں اس بات پر زور ديا کہ اُن کے ملک کا تاريخی حريف بھارت افغانستان کو پاکستان کا مخالف بنانے کی کوششوں ميں لگا ہوا ہے۔ سابق پاکستانی صدر نے کارنيگی اينڈاؤمنٹ فار انٹرنيشنل پيس ميں تقرير کرتے ہوئے کہا: ’’ہماری آزادی کے وقت ہی سے افغانستان پاکستان کے خلاف رہا ہے کيونکہ افغانستان سے بھارت اور سوويت يونين کے اچھے روابط تھے۔ ہميں اس صورتحال کو جاری رہنے کی اجازت نہيں دينا چاہيے۔ اگر پاکستان اپنے مفادات کے تحفظ کے ليے آئی ايس آئی کو جوابی اقدامات کے احکامات ديتا ہے تو ہميں اس پر ناراض ہونے کی ضرورت نہيں ہے۔‘‘

مشرف نے کہا کہ ايک عشرے سے بھی زيادہ جنگ کرنے کے بعد جب امريکہ سن 2014 ميں اپنے فوجی افغانستان سے نکال لے گا تو اس کے بعد افغانستان قوميتی خطوط پر تنازعات ميں گھر سکتا ہے۔ انہوں نے واشنگٹن ميں کارنيگی انٹرنيشنل پيس سينٹر ميں تقرير کرتے ہوئے مزيد کہا: ’’آپ اپنے پيچھے ايک مستحکم افغانستان چھوڑ کر جا رہے ہيں يا غير مستحکم؟ کيونکہ اسی کی بنياد پر مجھے پاکستان ميں خود اپنے جوابی اقدامات کرنا ہوں گے۔ افغانستان کی غير مستحکم صورتحال کے پاکستان پر برے اثرات پڑيں گے۔ اس ليے پاکستان کے کسی بھی حکمران کو اپنے ملک کے مفادات کی حفاظت کرنا ہو گی۔‘‘

روس ميں ايک سربراہ کانفرنس ميں( بائيں طرف سے ) تاجکستان کے صدر رحمانوف،صدر کرزئی، صدر زرداری اور روسی صدر ميدويديف
روس ميں ايک سربراہ کانفرنس ميں( بائيں طرف سے ) تاجکستان کے صدر رحمانوف،صدر کرزئی، صدر زرداری اور روسی صدر ميدويديفتصویر: AP

پاکستان نے طالبان کی تخليق ميں مدد دی تھی اور وہ افغانستان کی سخت گير طالبان حکومت کا سب سے بڑا حامی تھا۔ ليکن سن 1999 ميں بغاوت کے نتيجے ميں برسر اقتدار آنے والے پرويز مشرف نے 11 ستمبر سن 2001 کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد پاليسی تبديل کرتے ہوئے امريکہ کا ساتھ دينے کا فيصلہ کيا تھا۔

ليکن اس سال مئی ميں پاکستان کو اطلاع ديے بغير ايبٹ آباد ميں اسامہ بن لادن کے خلاف امريکی خفيہ دستے کی کارروائی کے بعد سے پاکستان اور امريکہ کے تعلقات انتہائی کشيدہ ہو گئے ہيں۔

حامد کرزئی
حامد کرزئیتصویر: dapd

بھارت افغانستان کو دو ارب ڈالر کی امداد دے چکا ہے اور اس ماہ کے شروع ميں دونوں ملکوں نے حربی دفاعی نوعيت کے ايک معاہدے پر بھی دستخط کيے ہيں۔ افغان صدر حامد کرزئی نے اسلام آباد کے خدشات کو کم کرنے کے ليے حال ہی ميں کہا تھا کہ اگر پاکستان اور امريکہ ميں جنگ چھڑی تو افغانستان پاکستان کا ساتھ دے گا۔ ليکن بعد ميں کرزئی نے يہ کہا کہ اُن کے بيان کی غلط تشريح کی گئی ہے۔

مشرف نے کہا کہ يہ کرزئی کا پہلا ’ پاکستان دوست‘ بيان ہے ليکن پرويز مشرف نے صدر کرزئی کے ان الفاظ کو بے سروپا قرار ديا۔

رپورٹ: شہاب احمد صديقی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں