1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان اور بھارت: بندوقیں خاموش مگر تناؤ موجود

28 نومبر 2016

پاکستان اور بھارت کے مابین منقسم کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر کئی مہینوں سے جاری فائرنگ کا سلسلہ تھم چکا ہے۔ سرحدی فائرنگ کے یہ واقعات گزشتہ کئی دہائیوں کے شدید ترین واقعات تھے۔

https://p.dw.com/p/2TOqy
Karte Region Kaschmir DEU

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے ایک تجزیے کے مطابق گزشتہ پانچ دنوں سے سرحدی فائرنگ کا سلسلہ رُکا ہوا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ جوہری طاقت کے حامل ان دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان حالیہ سرحدی کشیدگی کی کوئی مثال کم ہی نظر آتی ہے۔ سفارتی طریقہ کار سے ہٹ کر دونوں ممالک کی فوجوں کی طرف سے نہ صرف فوجی چیک پوسٹوں کو نشانہ بنایا گیا بلکہ سرحدوں کے قریب موجود ایک دوسرے کے انفراسٹرکچر کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس دوران ہلاک ہونے والے فوجیوں کی ایسی لاشیں بھی ملیں جنہیں مسخ کر دیا گیا تھا۔

Indien Kaschmir Indische Paramilitärs
بھارتی فوج کی کارروائیوں کے نتیجے میں 90 سے زائد کشمیری ہلاک جبکہ سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیںتصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin

1947ء میں برصغیر کی تقسیم کے بعد وجود میں آنے والے پاکستان اور بھارت کے ابتداء سے ہی تعلقات کشیدہ رہے ہیں۔ دونوں ممالک اب تک تین جنگیں لڑ چکے ہیں اور ان میں سے دو ہمالیہ کے خطے کشمیر کے معاملے پر ہوئیں۔ یہ خطہ دونوں ممالک میں تقسیم ہے اور دونوں ہی ملک اس مکمل علاقے پر اپنا حق جتاتے ہیں۔ کشیدگی کے خاتمے کے لیے کئی بار امن مذاکرات ہوئے، جو بے نتیجہ ہی رہے۔

دونوں ریاستوں کے درمیان 2003ء میں جنگ بندی کا ایک معاہدہ ہوا تھا، جو کچھ برسوں تک قائم رہا مگر اس کے بعد سے اس کی اکثر خلاف ورزیاں ہوتی رہتی ہیں۔ بھارت پاکستان پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں علیحدگی پسندوں کو اسلحہ اور تربیت فراہم کر رہا ہے جو بھارتی حکومت کے خلاف اور مسلم اکثریت والے کشمیر کے خطے کی آزادی کے لیے سرگرداں ہیں۔ تاہم پاکستان ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ وہ کشمیریوں کی صرف سفارتی اور اخلاقی مدد کرتا ہے۔ پاکستان کا الزام ہے کہ بھارت نے کشمیر پر فوج کے ذریعے غیر قانونی تسلط قائم کیا ہوا ہے۔

مسئلہ کشمير پر برلن میں دستاویزی فلم کی نمائش

بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی کا آغاز رواں برس بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں عام شہریوں کے طرف سے بڑے پیمانے پر احتجاج اور آزادی کے مطالبات کی وجہ سے ہوا۔ یہ احتجاج ایک علیحدگی پسند نوجوان کمانڈر برہان وانی کی بھارتی فوج کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد شروع ہوا تھا۔ حکومت مخالف مظاہروں کو دبانے کے لیے بھارتی فوج کی کارروائیوں کے نتیجے میں 90 سے زائد کشمیری ہلاک جبکہ سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔

اس تناؤ میں مزید اضافہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے اڑی میں قائم بھارتی فوج کے ایک اڈے پر ستمبر میں ہونے والے عسکریت پسندوں کے ایک حملے کے بعد ہوا جس کے نتیجے میں بھارت کے 19 فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پاکستان اور بھارت کی طرف سے گزشتہ دو ماہ کے دوران اب تک 300 سے زائد مرتبہ سیزفائر کی خلاف ورزی کی جا چکی ہے۔ ایک دوسرے کی فوجی پوزیشنوں اور سرحدی دیہات میں کی جانے والی فائرنگ کے نتیجے میں اب تک کم از کم 17 بھارتی فوجی اور 12 سویلین ہلاک ہو چکے ہیں۔

پاکستانی حکام کے مطابق بھارتی افواج کی سرحد پار سے فائرنگ کے نتیجے میں اب تک 44 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں وہ 11 عام شہری بھی شامل ہیں جو ایک بس پر بھارتی فوج کی فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہوئے تھے۔