1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان اور بھارت پانی تنازعہ، عالمی بینک اپنا کردار ادا کرے

بینش جاوید
5 جنوری 2017

پاکستان کو بھارت کی جانب سے دریائے نیلم پر تعمیر کیے جانے والے کشن گنگا پن بجلی منصوبے پر تحفظات ہیں۔ پاکستان چاہتا ہے کہ عالمی بینک پاکستان کے تحفظات کی بنیاد پر ایک ٹربیونل تشکیل دے۔

https://p.dw.com/p/2VLqe
China Kohlekraftwerk in Huaian
تصویر: picture-alliance/dpa

پاکستان کو بھارت کے دو پن بجلی منصوبوں پر  اعتراضات  ہیں۔  ایک دریائے چناب پر راتلے ڈیم  اور دریائے نیلم پر کشن گنگا کا منصوبہ ۔ کشن گنگا کے حوالے سے ٹربیونل اپنا فیصلہ سنا چکا ہے۔ پاکستان کو اس فیصلے سے متعلق کچھ تحفظات تھے اور پاکستان  نے ان تحفظات کی بنیاد پر عالمی بینک کے پاس ایک اور ٹربیونل تشکیل دینے کی درخواست دی تھی۔

بھارت کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر ایک غیر جانبدار ثالث ہونا چاہیے ۔ عالمی بینک کا کہنا ہے کہ آپ دو طرفہ سطح پر اس معاملے کو حل کر لیں۔ بھارت میں پاکستان کے سابق سفیر عزیز خان نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،’’ عالمی بینک کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اب بھارت کشن گنگا ڈیم پر اپنا کام مکمل کرنے والا ہے اور اگر ایسا ہو گیا تو بھارت کہے گا کہ اب تو منصوبہ مکمل ہو گیا ہے اور اب کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ ‘‘ عزیز خان کہتے ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عالمی بینک نے بھارت کا ساتھ دیا ہے۔ پاکستان کا موقف ہے فوری طور پر ٹربیونل قائم کیا جائے اور جو فیصلہ ٹربیونل کرے اسے دونوں ممالک کو ماننا ہوگا۔

Ukraine Wasserkraftwerk an Dnepr
عالمی بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت دو طرفہ سطح پر اس معاملے کو حل کر لیںتصویر: RIA Novosti

بھارت کی تجزیہ کار سوسوشھا براوو، جو کہ پاک بھارت ٹریک ٹو ڈپلومیسی کا بھی حصہ ہیں کا کہنا ہے کہ بھارت کو یہ واضح نہیں ہے کہ پاکستان کو کشن گنگا ٹریبیونل کے فیصلے پر کیا تحفظات ہیں۔ انہوں نے کہا،’’ سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت اور پاکستان کو مشترکہ طور پر اس معاملے پر مذاکرات سے معاملہ حل کرنا چاہیے اور کسی بھی نتیجے تک نہ پہنچنے کی صورت میں معاملہ عالمی بینک تک لے کر جانا چاہیے۔‘‘وہ کہتی ہیں کہ دونوں ممالک کے ماہرین کو مل کر  تحفظات پر بات چیت کرنی چاہیے اور مسائل کا حل نکالنا چاہیے۔ سو سوشھا براوو کا کہنا ہے کہ پانی بھارت کے لیے بھی بہت اہم معاملہ ہے سن 2016 میں بھارت کی کئی ریاستوں میں قحط سالی رہی اس مسئلے کو پاکستان اور بھارت کو بات چیت سے حل کرنا ہو گا۔

ماہرین کی رائے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدہ ایک جامع اور مفصل معاہدہ ہے، جس میں تنازعات کے حل کا ایک بہترین نظام موجود ہے۔کسی بھی تنازعہ کی صورت میں پہلے انڈس کمشنر مذاکرات سے معاملے کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اگر اس سطح پر حل نہ نکل سکے تو معاملہ سکریٹری سطح پر طے کیا جاتا ہے اور اگر تب بھی کسی حل تک نہ پہنچا جا سکے تو معاملے کو عالمی بینک تک لے جایا جاتا ہے۔ اگر وہ کوئی تکنیکی معاملہ ہو تو عالمی بینک غیر جانبدار ماہرین کو یہ معاملہ حل کرنے کے لیے سونپ دیتا ہے اور اگر کوئی تنازعہ ہو تو ایک ٹربیونل تشکیل دیا جاتا ہے جس میں دونوں ممالک کے دو دو رکن ہوتے ہیں اور اس ٹربیونل کی سربراہی عالمی بینک کرتا ہے۔

Spain-Energy Island
عالمی بینک نے پاکستان کی جانب سے ٹربیونل تشکیل دینے کی درخواست کو فی الحال روک دیا ہےتصویر: Lauren Frayer

اسلام آباد میں جرمن پولیٹیکل فاؤنڈیشن کے رکن عبداللہ دایو نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ پاکستان کو یہ خطرہ رہتا ہے کہ بھارت کی جانب سے بنائے جانے والے پن بجلی کے منصوبوں سے پاکستان کو پانی کی کمی کا سامنا ہو سکتا ہے۔‘‘

دریائے نیلم پر پاکستان کا بھی پن بجلی پاور پلانٹ بن رہا ہے جو کہ دو تین برس میں مکمل ہو جائے گا۔ عزیز خان کی رائے میں پاکستان چاہتا ہے کہ کشن گنگا ڈیم میں کوئی ایسا ڈیزائن نہ ہو جو پاکستان کو نقصان پہنچا سکے۔

عزیز خان کہتے ہیں،’’ عالمی بینک کو فوری طور پر ایک ٹربیونل تشکیل دینا چاہیے تاکہ یہ مسئلہ حل ہو جائے ورنہ تاخیر کی صورت میں پاکستان کو نقصان ہوگا۔ اس معاملے پر امریکا، دیگر ممالک اور عالمی بینک کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔‘‘

خطے میں پانی سے جڑے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے ادارے ’دی تھرڈ پول‘ کی ویب سائٹ کے مطابق،’’ عالمی بینک نے پاکستان کی جانب سے ٹربیونل تشکیل دینے کی درخواست کو فی الحال روک دیا ہے اور دونوں ممالک کو جنوری میں مشترکہ طور پر یہ فیصلہ کرنے کا موقع فراہم کیا ہے کہ وہ اس مسئلے کا حل کیسے چاہتے ہیں۔‘‘ اس ویب سائٹ کے مطابق پاکستان کی جانب سے ثالثی عدالت کے قیام اور بھارت کی جانب سے ایک غیر جانب دار ثالثی کے مطالبے نے دونوں ممالک کے درمیان سندھ طاس معاہدے کو مسئلے کا حل نکالنے سے روک دیا ہے۔ عالمی بینک کے ترجمان کی جانب سے اس ویب سائٹ کو بتایا گیا ہے کہ اگر کسی ایک حکومت کو بھی کچھ ایسا عمل قبول کرنے کا کہا گیا جس پر انہیں اتفاق نہیں ہے تو وہ تعاون نہ کر کے اس معاملے کو طول دینے کی کوشش کر سکتے ہیں۔