1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان اور بھارت کے درمیان نیا تنازعہ

جاوید اختر، نئی دہلی16 مارچ 2016

ورلڈ کپ ٹی 20 کرکٹ میں بھارت اور پاکستان کی ٹیموں کے درمیان یوں تو 19مارچ کو مقابلہ ہونا ہے تاہم اس میچ کے حوالے سے دونوں ملکوں کے درمیان ایک نئی سفارتی جنگ ابھی سے شروع ہوگئی ہے۔

https://p.dw.com/p/1IE2O
Flagge Pakistan und Indien
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Sharma

یہ نیا سفارتی تنازعہ اس وقت پیدا ہوا جب بھارت نے 19مارچ کودونوں ملکوں کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان ہونے والے ورلڈ کپ ٹی 20 کرکٹ میچ کو دیکھنے کے خواہش مند نئی دہلی میں مقیم کئی پاکستانی سفارت کاروں کو کولکتہ جانے کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔ نئی دہلی میں سرکاری ذرائع کا کہنا ہے، ’’دو پاکستانی سفارت کاروں کو کولکتہ جانے کی اجازت دے دی گئی ہے لیکن پانچ دیگر سفارت کاروں کو اس لیے اجازت نہیں دی گئی کہ ان کے تعلقات پاکستان کی انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور فوج سے ہیں۔‘‘

رپورٹوں کے مطابق جن سفارت کاروں کو کولکتہ جانے کی اجازت نہیں دی گئی، ان میں ایک فرسٹ سیکرٹری اور دو پروٹوکول افسر شامل ہیں۔ خیال رہے کہ بھارت نے ایک سو پاکستانی کرکٹ شائقین کے لیے ویزے جاری کیے ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے مابین یہ میچ پہلے ہی کئی تنازعات سے دوچار ہوچکا ہے۔ ابتدا میں اس میچ کو قومی دارالحکومت نئی دہلی سے تقریباً پانچ سو کلومیٹر دور ہماچل پردیش کے پرفضا مقام دھرم شالہ میں منعقد ہونا تھا، جہاں تبتیوں کے روحانی پیشوا دلائی لامہ کا صدر دفتر بھی ہے۔ لیکن سکیورٹی وجوہات کے باعث بعد ازاں اس میچ کو کولکتہ منتقل کرنا پڑا۔

حکومت پاکستان نے بھی اپنے کھلاڑیوں کی سکیورٹی کے سلسلے میں خدشات کا اظہار کیا تھا، جس کی وجہ سے پاکستانی کھلاڑیوں کے بھارت نہ آنے کا خدشہ بھی پیدا ہوگیا تھا۔ تاہم بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ اور مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی کی طرف سے کھلاڑیوں کی سلامتی کے لیے خاطر خواہ اقدامات کی ذاتی یقین دہانیاں کرائے جانے کے بعد حکومت پاکستان نے قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کو بھارت جانے کی اجازت دے تھی۔
اپنے سفارت کاروں کو کولکتہ جانے کی اجازت نہ د یے جانے پر نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن نے افسوس اور مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

پاکستانی ہائی کمیشن کے اعلیٰ ذرائع کا کہنا ہے، ’’ہم اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے کولکتہ کے ایڈن گارڈن میں موجود رہنا چاہتے تھے اور ہم نے سات افسران کو کولکتہ جانے کی اجازت حاصل کرنے کے لیے بہت پہلے ہی بھارتی افسران کو درخواستیں بھیج دی تھیں۔ لیکن کل (منگل) کی شام تک ہمیں ساتوں افسران کے لیے اجازت کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی تھی حالانکہ ہم نے کولکتہ کے لیے فلائٹ اور وہاں ہوٹل کے کمرے بھی بک کرا لیے تھے۔‘‘ پاکستانی ہائی کمیشن کے ایک اعلیٰ افسر کا مزید کہنا تھا، ’’ہمیں اب پتہ چلا کہ صرف دو لوگوں کو کولکتہ جانے کی اجازت ملی ہے۔ لیکن اتنے مختصر نوٹس پر ان کے لیے وہاں کا سفر کرنا مشکل ہوگا۔‘‘

Bangladesch Dhaka Pakistans Cricket Mannschaft im Spiel gegen Sri Lanka
نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے اہلکار کولکتہ میں پاکستانی اور بھارتی ٹیموں کا میچ دیکھنے جانا چاہتے تھےتصویر: Getty Images/AFP/Munir Uz Zaman

پاکستانی ہائی کمیشن کے اس افسر کا مزید کہنا تھا، ’’یہ پیش رفت انتہائی افسوس ناک ہے اور ہمیں اس سے کافی صدمہ پہنچا ہے۔ بھارت ورلڈ کپ کا میزبان ہے اور اسپورٹس کو باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔ لیکن ہمیں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘‘ اس پاکستانی افسر نے بھارت کے رویے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس موقع کو خیر سگالی میں اضافے کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا، لیکن یہ موقع گنوا دیا گیا۔

دریں اثناء نئی دہلی میں بھارت کے اعلیٰ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے، ’’یہ ویزا دینے سے انکار کا کوئی معاملہ نہیں ہے، بلکہ دہلی میں پاکستانی سفارت کاروں کو وزارت خارجہ کی طرف سے سفر کی اجازت دینے کا معاملہ ہے۔ ہم نے دو پاکستانی سفارت کاروں کو جانے کی اجازت دے دی ہے بقیہ پانچ کا تعلق آئی ایس آئی اور ڈیفنس سے ہے۔‘‘

واضح رہے کہ ٹی 20 کرکٹ ورلڈ کپ کے میچوں کو دیکھنے کے لیے پاکستان سے آنے والے شائقین کے سلسلے میں بھارتی افسران پہلے سے ہی کافی الرٹ ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ میچ دیکھنے کے نام پر آنے والے پاکستانی بالعموم بعد میں یہاں لاپتہ ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے بھارت نے اس مرتبہ بہت محدود تعداد میں پاکستانیوں کو ویزے دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ بھارتی حکام کو خدشہ ہے کہ کرکٹ کے شائقین کی آڑ میں کچھ انتہاپسند بھی بھارت میں داخل ہوسکتے ہیں، اس لیے آنے والوں کے لیے ویزے کے ساتھ کئی شرائط بھی عائد کر دی گئی ہیں۔ اب کرکٹ میچ دیکھنے کے لیے بھارت آنے والے کسی بھی پاکستانی کو میچ کی ٹکٹ کے ساتھ سفر کا ریٹرن ٹکٹ اور ہوٹل بکنگ کی دستاویزات بھی پیش کرنا ہوں گی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں