1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان اور جرمنی کے تعلقات کا فروغ چاہتے ہیں، جرمن سفیر

تنویر شہزاد، لاہور18 اپریل 2016

پاکستان میں تعینات جرمن سفیر اینا لیپل نے کہا ہے کہ پاک جرمن رینوایبل انرجی (قابل تجدید توانائی) فورم کا قیام جلد عمل میں لایا جائے گا۔ اس فورم کے قیام سے اس شعبے میں دونوں ممالک کے تجارتی تعلقات فروغ ملے گا۔

https://p.dw.com/p/1IXuk
Deutsche Botschafterin in Pakistan Ina Lepel
تصویر: DW/T. Shahzad

ڈی ڈبلیو سے لاہور میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اینا لیپل کا کہنا تھا کہ جرمنی مختلف شعبوں میں پاکستان کی مدد کر رہا ہے۔ ان کے بقول اگر توانائی کے شعبے کی بات کی جائے تو جرمنی نے ماضی میں پن بجلی کے شعبے میں پاکستان کو مدد فراہم کی۔ ’’اب ہم قابل تجدید توانائی اور اس کے موثر استعمال (انرجی ایفیشنسی) کے شعبے میں پاکستان کو معاونت فراہم کر رہے ہیں۔‘

ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو میں ان کا مزید کہنا تھا، ’’حال ہی میں پاکستان سولر ایسوسی ایشن نے جرمنی کی سولر ایسوسی ایشن کے ساتھ مفاہمت کی ایک یاد داشت پر دستخط کیے ہیں۔ اس پیش رفت کے بعد اب جرمنی کی سولر ٹیکنالوجی پاکستان میں دستیاب ہو سکے گی۔‘‘

Deutsche Botschafterin in Pakistan Ina Lepel
لیپل نے گزشتہ برس پاکستان کے لیے جرمن سفیر کی ذمہ داریاں سنبھالی تھیںتصویر: DW/T. Shahzad

ایک سوال کے جواب میں اینا لیپل کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ رینیو ایبل انرجی کے شعبے میں کاروباری افراد کو چیلنجز کا بھی سامنا رہتا ہے۔ خاص طور پر پاکستان میں ریگولیٹری ایشوز کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

اینا لیپل کا کہنا تھا کہ پاکستان اور جرمنی میں تجارت کے فروغ کے امکانات کافی ہیں لیکن اس وقت پاکستان اور جرمنی کے مابین ہونے والی تجارت کا حجم جرمنی کی بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ کے ساتھ ہونے والی تجارت سے بھی کم ہے۔ ان کے بقول اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کہ یہ ممالک قدرے زیادہ مسابقتی صلاحیت رکھتے ہیں یا ان ممالک کی مصنوعات جرمنی کی مارکیٹس کی ضروریات پر زیادہ پورا اترتی ہیں۔ ’’ہم پاکستان اور جرمنی کی تجارت میں حائل مشکلات کا پتہ چلانے اور ان مشکلات کو دور کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔‘‘

ایک اور سوال کے جواب میں اینا لیپل کا کہنا تھا کہ ووکیشنل ایجوکیشن ٹریننگ ایک اور ایسا شعبہ ہے جہاں جرمنی پاکستان کی مدد کر رہا ہے۔ ’’ہم یہ چاہتے ہیں کہ اچھی فنی تعلیم کے ذریعے پاکستان کے کاروباری سیکٹرز اسٹینڈرائزڈ ہوں اور طالب علموں کو جو سرٹیفیکیٹ ملیں ان سے ان کی اہلیت میں بھی اضافہ ہو اور وہ کوالٹی کے اچھے معیارات کو فالو کر سکیں۔ اس کے علاوہ ان کی اسناد کو ملک بھر میں تسلیم کیا جائے۔‘‘

اینا لیپل کا یہ بھی کہنا تھا کہ جرمنی چاہتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ ان کے ثقافتی اور تعلیمی وفود کا بھی زیادہ سے زیادہ تبادلہ ہو۔

لاہور میں ہونے والے پاک جرمن بزنس فورم کے اسپرنگ گالہ 2016 کی رنگا رنگ تقریب کےحوالے سے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کر تے ہوئے اینا لیپل کا کہنا تھا کہ یہ دوسرا موقع ہے کہ اس اسپرنگ فیسٹیول کے ذریعے پاکستان اور جرمنی کی کاروباری شخصیات کو اکٹھا ہونے کا موقع ملا ہے۔ ان کے بقول یہ میلہ پاکستان اور جرمنی کی کمپنیوں کی تیار کردہ مصنوعات کی نمائش کا بھی ایک اچھا موقع فراہم کر تا ہے۔ اسپرنگ گالہ 2016 کے موقعے پر پاکستان اور جرمنی کی کمپنیوں کی تیار کردہ مصنوعات کی نمائش کا اہتمام بھی کیا گیا۔ اس تقریب کے آخر میں ایک کلچرل شو کا بھی انعقاد کیا گیا ۔

54 سالہ اینا لیپل 21 اگست 2015 سے پاکستان میں جرمنی کی سفیر کے طور پر فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ اقتصادیات میں اعلیٰ تعلیم کی حامل لیپل اس سے پہلے بھی 2006 سے 2009 تک پاکستان میں ڈپٹی ہیڈ آف مشن کے طور پر خدمات سرانجام دے چکی ہیں۔

اس سوال کے جواب میں کہ دہشت گردی کے شکار ملک میں سفارتی ذمہ داریاں ادا کر نے کا تجربہ کیسا رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک پروفیشنل سفارت کار ہیں، انہیں چیلنجز کا سامنا کر نا، مشکل حالات سے نبرد آزما ہونا اور مسائل کا حل تلاش کرنا اچھا لگتا ہے۔ ان کے بقول پاکستان جیسے خطوں میں کام کر نا ایک چیلنج بھی ہے اور انہیں یہاں کام کرنا اچھا لگتا ہے۔