1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: ایک قدم آگے، دو قدم پیچھے

عدنان اسحاق حارث خلیق
17 دسمبر 2017

2017ء ختم ہونے کو ہے۔ اس موقع پر پاکستان اندھیرے اور عیاری کی سیاست میں گھرا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ شاعر و ادیب حارث خلیق لکھتے ہیں کہ ستر سال گزرنے کے باوجود ریاست سیاسی اور اقتصادی شعبوں میں تبدیلی کے دور سے گزر رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/2pV8y
تصویر: Reuters

وسائل کی فراوانی اور بڑی تعداد میں باصلاحیت افراد کی موجودگی میں پاکستان جیسے ملک میں معیشت میں ترقی، غربت میں کمی اور سیاسی اداروں میں دائمی عدم استحکام کی صورتحال میں مثبت تبدیلی کے سلسلے کو طویل عرصہ قبل ہی مکمل ہو جانا چاہیے تھا۔ حارث خلیق کے مطابق  2017ء میں ملکی سیاست میں رونما ہونے والے واقعات کی وجہ سے تبدیلی کا یہ عمل مکمل نہیں ہو پایا۔ ماضی کی روایات اسی طرح سے موجود ہیں جبکہ ساتھ ساتھ ان میں نئے عوامل اور رجحانات کا اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

رواں سال کے تین بڑے سیاسی واقعات میں سے ایک عدالت عظمٰی کے پانچ رکنی بینچ کی جانب سے وزیر اعظم نواز شریف کو نا اہل قرار دیا جانا تھا، دوسرا کراچی میں دو سیاسی جماعتوں کا اتحاد اور پھر فوری علیحدگی اور تیسرا واقعہ ملکی منظر نامے پر ابھرنے والی ایک نئی مذہبی جماعت کی جانب سے راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم پر دیا جانے والا دھرنا تھا۔

Harris Khalique Schriftsteller aus Pakistan
اس طرح کی کوششیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی ملکی سیاسی نظام کو اپنے زیر اثر کرنے کی خواہش ابھی باقی ہے، حارث خلیقتصویر: Privat

 

اداروں کے مابین تصادم

سابق وزیر اعظم نواز شریف کی مخالف عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف نے شریف کو وزارت عظمٰی اور پارلیمان کی رکنیت سے نا اہل قرار دلوانے کے لیے اس وقت عدالت کا رخ کیا، جب ان کے بچوں کے نام پاناما پیپرز میں سامنے آئے۔ ان الزامات کا تعلق اس دور میں رقوم کی غیر قانونی منتقلی سے تھا، جب نواز شریف وزیر اعظم تھے۔ بہرحال انہیں اور ان کے اہل خانہ کو دوران تفیتش سامنے آنے والے دیگر الزامات کی وجہ سے نا اہل قرار دے دیا گیا۔ اب ان الزامات کی چھان بین کی جا رہی ہے جبکہ نواز شریف وزیر اعظم کے منصب پر براجمان بھی نہیں ہیں۔ نواز شریف کی نااہلی کا تعلق اس مہم سے جوڑا جا سکتا ہے، جو ان کے وزیر اعظم بننے کے ساتھ ہی ان کے خلاف شروع ہو گئی تھی۔ ان کی حکومت کو مسلسل مسائل کا سامنا رہا تھا۔

 

اس سے متعلقہ ایک پیش رفت پندرہ دسمبر کو عدالت عظمٰی کی جانب سے سنائے جانے والے ان مقدمات کا فیصلہ بھی ہے، جو نوازشریف کی پارٹی کے ایک رکن  نے عمران خان اور پی ٹی آئی کے سابق سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین کے خلاف دائر کیے تھے۔ ان دونوں رہنماؤں پر اپنے اثاثے اور رقوم ظاہر نہ کرنے، بیرون ملک کمپنیاں قائم کرنے، ٹکیس چوری اور مالیاتی خرد برد کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ عدالت کے مطابق عمران خان نے اپنے اثاثوں کے حوالے سے دانستہ طور پر کوئی معلومات نہیں چھپائی تھیں اور ان پر لازم بھی نہیں تھا کہ وہ اپنی آف شور کمپنیوں کے بارے میں بتائیں۔ ایسا لگتا ہے کہ عمران خان سے متعلق فیصلہ بظاہر ان کے مثبت ارادوں کی بنیاد پر کیا گیا جبکہ دوسروں کے بارے میں فیصلہ محض ان کے اعمال کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔ تاہم عدالت نے جہانگیر ترین کو خفیہ تجارت اور اثاثے چھپانے کے الزام میں نا اہل قرار دے دیا ہے۔ اس طرح شاید نواز شریف کی جماعت کی ساکھ میں کچھ بہتری تو آئے تاہم وسیع پیمانے پر اس فیصلے کا کوئی اثر نہیں پڑے  گا۔

نواز شریف کی خارجہ پالیسی بہت حد تک فوج کے ساتھ مطابقت رکھتی تھی تاہم سابق آمر پرویز مشرف کو ملزم قرار دلوانے اور تمام پالیسی معاملات پر حکومتی عملداری کو یقینی بنانے کی نواز شریف کی خواہش ریاستی اداروں کے مابین تضادات میں شدت کا باعث بنی۔

شریف اور ان کے ساتھی گزشتہ دہائی کے دوران طاقت کے نئے مراکز کے طور پر ابھرنے والے اداروں کو نظر انداز کر گئے، عدلیہ اور ذرائع ابلاغ ان کی واضح مثال ہیں۔  لہٰذا یہ معاملہ منتخب حکومت اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے مابین زیر بحث نہیں آ سکتا۔

 

سیاست میں غیر سیاسی ہاتھ

پاکستان کا اقتصادی مرکز اور سب بڑا شہر کراچی پاک چین اقتصادی راہ داری (سی پیک) کی سرمایہ کاری کے ساتھ اور اس کے بغیر بھی ملکی معیشت کی شہ رگ تصور کیا جاتا ہے۔ یہ شہر ایک عرصے سے سیاسی تشدد کا شکار رہا ہے۔ اس شہر میں امن و امان کی صورتحال کی ذمہ داری پاکستان رینجرز کے ذمے ہے۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ملکی اسٹیبلشمنٹ صوبہ سندھ میں اردو بولنے والوں کی اکثریت والی ایک جماعت یا ایک دھڑے کی حمایت کر رہی ہے تاکہ مرکزی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی طاقت کو کم  کیا جا سکے۔ ابھی حال ہی میں متحدہ قومی موومنٹ اور پاک سرزمین پارٹی کا اتحاد اس طرح سے کام نہیں کر سکا، جیسا کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ چاہتی تھی۔ بعد ازاں ان دونوں جماعتوں نے تسلیم کیا کہ انہیں سلامتی کے اداروں نے قریب لانے کی کوشش کی تھی۔ اس طرح کی کوششیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی ملکی سیاسی نظام کو اپنے زیر اثر کرنے کی خواہش ابھی باقی ہے اور اس نے ماضی میں اپنی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا۔

مذہبی سیاست

گزشتہ دنوں کے دوران راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم پر ایک فریبی سیاسی امنگ رکھنے والی نئی سیاسی جماعت تحریک لبیک یا رسول اللہ کے دھرنے میں یہی طرز عمل واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا۔ یہ دھرنا ختم نبوت کے مسئلے پر تھا۔ حالانکہ یہ معاملہ 1974ء میں آئین میں کی جانے والی ایک ترمیم کے ذریعے حل کیا جا چکا ہے جبکہ موجودہ پارلیمان نے حلف میں کچھ ترامیم شامل کی تھیں، جنہیں بعد میں ختم بھی کر دیا گیا تھا۔ تاہم اس کے باوجود تحریک لبیک یا رسول اللہ (ٹی ایل وائی آر)  نے دیگر افراد کے علاوہ وزیر قانون کے استعفے کا مطالبہ کیا۔ فوج کی جانب سے مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال نہ کرنے کے مشورے کے بعد حکومت نے اس جماعت کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے۔ اس دھرنے کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی روزمرہ کی مصروفیات منجمد ہو کر رہ گئی تھیں اور کاروباری سرگرمیوں کو شدید نقصان پہنچا تھا۔

پاناما کیس، آغاز سے اختتام تک، کب کیا ہوا؟

جہانگیر ترین کی تا عمر نا اہلی، عمران کا ’دامن صاف نکلا‘

’صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں‘

نواز شریف کی نااہلی کے بعد مستقبل کا پارٹی منظر، مشاورت جاری

 

تحریک لبیک کے دباؤ کی وجہ حکومت ایک طرح سے محصور ہو کر رہ گئی تھی اور اس واقعے کو بنیاد پر کر مستقبل میں ممکنہ طور پر چھوٹی مذہبی سیاسی تنظیمیں کسی بھی مسئلے پر حکومت کو یرغمال بنا سکتی ہیں۔ نواز شریف کے حامی کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ تحریک لبیک کا دھرنا ’ن‘ لیگ کے اندر ہی سے نواز شریف کے جانشین شاہد خاقان عباسی کو غیر مستحکم  کرنے کی ایک کوشش تھا۔

حکومت سازی کے اہم کردار

پاکستان مسلم لیگ ن کے پاس  2018ء کے انتخابات میں سب سے بڑی جماعت بن کر ابھرنے کا ابھی بھی موقع ہے، اگر وہ اعلٰی عدلیہ اور فوجی قیادت کے خلاف اپنی جارحانہ پالیسی ترک کر دے تو۔ اس پارٹی کو ذرائع ابلاغ کی مخالفت کا سامنا بھی ہے اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ووٹر بھی اسے شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اگر پاکستان مسلم لیگ ان تمام گروپوں سے مفاہمت کرنے سے انکار کر دیتی ہے، تو اگلے انتخابات میں قومی اسمبلی چار مختلف حصوں میں تقسیم ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ ان میں’ن‘  لیگ، پاکستان تحریک انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی اور آزاد ارکان شامل ہوں گے، جو بالآخر حکومت سازی میں اہم ترین کردار ادا کریں گے۔

فیض آباد انٹر چینج میدان جنگ بن گیا