1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: بارہ طالبان عسکریت پسندوں کو رہا کردیا گیا

8 مارچ 2009

افغانستان سے ملحق پاکستانی صوبہِ سرحد میں حکّام نے بارہ طالبان عسکریت پسندوں کو رہا کردیا ہے۔

https://p.dw.com/p/H7ov
تئیس جنوری دو ہزار نو کو سوات سے تعلق رکھنے والے ایک ہزار افراد نے اسلام آباد میں حکومت کےخلاف مظاہرہ کیا تھاتصویر: AP

طالبان عسکریت پسندوں کی یہ رہائی حال ہی میں حکومت اور طالبان کے درمیان کیے گئے ایک معاہدے کی بنیاد پر عمل میں آئی ہے۔ صوبہِ سرحد کے مالاکنڈ ڈویژن میں واقع شورش زدہ علاقے سوات میں حکومت اور طالبان نفاذِ شریعت سے متعلق ایک معاہدے پر دستخط کرچکے ہیں جس کو ’نظامِ عدل‘ کا نام دیا گیا ہے۔ مذکورہ معاہدے کے تحت جہاں عسکریت پسند ہتھیار پھینکنے کے پابند ہیں وہاں حکومت حراست میں لیے گئے طالبان عسکریت پسندوں کو رہا کرنے کی بھی پابند ہے۔

Chaos und Gewalt in Pakistan Besetzte Polizeistation nahe der afghanischen Grenze Musharraf verhängt Ausnahmezustand in Pakistan
سوات کے علاقے میں عملاً طالبان کا کنٹرول ہےتصویر: AP

طالبان عسکریت پسندوں کی یہ رہائی ممکنہ طور پر مغربی ممالک کے لیے باعثِ تشویش ہوسکتی ہے جن کی افواج کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خاص طور پر افغانستان میں مشکلات کا سامنا ہے۔ عسکری اور دفاعی مبصرین کی رائے میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان قبائلی علاقے افغانستان میں شورش کا منبع ہیں۔ القاعدہ اور طالبان کی قیادت کے اسی علاقے میں روپوش ہونے کا بھی امکان ظاہر کیا جاتا رہتا ہے۔

Pakistan Präsident Asif Ali Zardari vereidigt
معتدل طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں، پاکستانی صدر آصف زرداریتصویر: AP


پاکستانی حکّام کے مطابق طالبان عسکریت پسندوں کو ہفتے کی شب رہا کیا گیا۔ حکّام کے مطابق یہ ان کی جانب سے طالبان کے لیے خیر سگالی کا ایک پیغام ہے اور ان کو امید ہے کہ اس کے جواب میں طالبان سوات میں امن قائم کرنے کے لیے اپنی زمہ داری پوری کریں گے۔

دریں اثناء پاکستانی حکّام نے بتایا ہے کہ مہمند ایجنسی کے علاقے میں طالبان نے ایک جھڑپ میں دس پولیس اہلکاروں کو قتل کردیا ہے۔ ایک حکومتی اہلکار اور تین پولیس اہلکاروں کو طالبان نے یرغمال بنا نے کے بعد مار کر پھینک دیا۔

Kinder und Frauen flüchten aus den umkämpften Gebieten
تصویر: Faridullah Khan

پاکستانی صدر آصف زرداری کا کہنا ہے کہ حکومت طالبان عسکریت پسندوں کے ساتھ نہیں بلکہ معتدل مذہبی رہنماؤں سے سوات میں مذاکرات کررہی ہے۔ واضح رہے کہ سوات میں طالبان رہنما صوفی محمّد نے حکومت کو پندرہ مارچ تک کی مہلت دی ہے کہ ان کے تمام مطالبات تسلیم کرلیے جائیں۔

سوات کے علاقے میں اسکولوں اور کاروباری مراکز کے دربارہ کھل جانے کے بعد بھی صورتِ حال معمول کے مطابق نہیں ہے اور علاقے کے لوگ اور سیاسی مبصرین حکومت اور طالبان کے درمیان معاہدے کے دیر پا ہونے پر متشکک ہیں۔