پاکستان بھی آسٹریلوی یورینیم خریدنے کا خواہش مند
5 دسمبر 2011سڈنی سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق آسٹریلیا میں پاکستانی ہائی کمشنر عبدالمالک عبداللہ نے قومی نشریاتی ادارے ABC کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں نے ہی 1970 میں طے پانے والے ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے NPT پر دستخط نہیں کیے ہیں۔ پاکستانی سفیر کے بقول اس پس منظر میں آسٹریلوی حکومت نے اگر صرف بھارت کو آسٹریلوی یورینیم فروخت کرنے کا فیصلہ کیا اور پاکستان کو انکار کر دیا تو یہ اسلام آباد کے ساتھ غیر منصفانہ رویہ ہو گا۔
عبدالمالک عبداللہ نے اپنے اس انٹرویو میں کہا کہ اگر آسٹریلوی حکومت این پی ٹی پر دستخط نہ کرنے والے کسی ملک کو یورینیم برآمد کرنے پر عائد عشروں پرانی پابندی میں کوئی ترمیم یا اس حوالے سے کوئی استثنائی فیصلہ کرتی ہے تو ایسا صرف کسی ایک ملک کے لیے کرنا غلط ہو گا اور ایسے کسی بھی استثنائی فیصلے کا اطلاق منطقی طور پر پاکستان پر بھی ہونا چاہیے۔
گزشتہ ویک اینڈ پر سڈنی میں وزیر اعظم جولیا گیلارڈ کی حکمران لیبر پارٹی کے ایک اعلیٰ سطحی کنوینشن میں مندوبین کی اکثریت نے اپنی جماعت کے این پی ٹی کے دائرہ کار سے باہر کسی بھی ملک کو یورینیم فروخت کرنے پر پابندی کے فیصلے کو منسوخ کرتے ہوئے یہ منظوری دے دی تھی کہ اس پابندی میں استثنائی نرمی کرتے ہوئے خاص طور پر بھارت کو یورینیم فروخت کی جا سکتی ہے۔
سڈنی سے جرمن خبر ایجنسی ڈی پی اے نے اس بارے میں اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ یوں تو ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر پاکستان اور بھارت میں سے کسی نے بھی دستخط نہیں کیے تاہم اسلام آباد کے مقابلے میں ایٹمی راز یا اہم ایٹمی معلومات کسی تیسرے ملک کو نہ بیچنے کے حوالے سے نئی دہلی کا ریکارڈ اچھا ہے۔
اس کے برعکس پاکستان میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے، جنہیں پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام کا بانی سمجھا جاتا ہے، سن 2004 میں یہ اعتراف کر لیا تھا کہ انہوں نے ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق ٹیکنالوجی غیر قانونی طور پر دوسرے ملکوں کو بھی منتقل کی تھی۔ پاکستانی حکومت کے مطابق اسے ماضی میں ڈاکٹر خان کی ایسی کسی بھی طرح کی مصروفیات کا کوئی علم نہیں تھا۔ بعد میں پاکستانی حکومت نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے لیے معافی کا اعلان کر دیا تھا۔
آسٹریلیا سے یورینیم خریدنے والے کسی بھی ممکنہ ادارے یا ملک کو پہلے اس بارے میں کینبرا حکومت کو مطمئن کرنا ہوتا ہے کہ آسٹریلوی یورینیم کو صرف بجلی پیدا کرنے کے لیے ایٹمی بجلی گھروں میں استعمال کیا جائے گا، نہ کہ اسے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کے کسی پروگرام میں بروئے کار لایا جائے گا۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادﺍرت: عاطف بلوچ