1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: جمہوری حکومت کا ایک سال

تنویر شہزاد، لاہور18 فروری 2009

18 فروری 2008 کو پاکستان میں ہونے والے انتخابات کے ایک سال بعد بدھ کے روز پاکستان میں یوم جمہورےت منایا گیا۔ ان انتخابات کے نتیجے میں پاکستان میں نئی جمہوری حکومت وجود میں آئی۔

https://p.dw.com/p/GwyS
پاکستانی صدر آصف علی زرداری اپنی اہلیہ مرحومہ بے نظیر بھٹو کی تصویر کے ہمراہتصویر: pa / dpa

آج کل پاکستان میں نئی جمہوری حکومت کی اب تک کی کارکردگی پر بحث جاری ہے۔ اگرچہ کسی بھی ملک کی کارکردگی کو جانچنے کےلئے ایک سال کا عرصہ کافی نہیں ہوتا لیکن پھر بھی پاکستان میں تاثر عام ہوتا جا رہا ہے کہ 18 فروری 2008 کو ہونے والے انتخابات کے ایک سال بعد بھی عوامی توقعات پوری نہیں ہو سکی ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کو عبر ت ناک شکست سے دو چار کر دینے والے انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی نئی حکومت پر سارا سال یہ الزام لگتا رہا کہ وہ جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ انتخابات کے ایک سال بعد بھی عوام مہنگائی کے ہاتھوں تنگ ہیں۔ عدلیہ کی بحالی کے لئے کئے گئے کئی وعدے وفا نہیں ہو سکے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کی طرف سے برطرف کئے گئے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور ان کے کئی ساتھی آج بھی اپنی بحالی کا انتظار کر رہے ہیں۔

Pakistan Demonstration für Richter Iftikhar Mohammed Chaudhry
ایک خاتون وکیل معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی تصویر ماتھے پر چسپاں کئے ہوئے مظاہرے میں شریکتصویر: AP

ممبئی بم دھماکوں کی آگ نے پاک بھارت دوستی کی امیدوں کو جلا کر بھسم کر دیا ہے اگرچہ اس ایک سال میں وائٹ ہائوس میں صدر بش کی جگہ اب باراک اوباما آ چکے ہیں لیکن پاکستان کے قبائلی علاقوں میں مبینہ امریکی کاروائیاں اب بھی جاری ہیں۔ یہ بات کہنا بھی غلط نہیں ہے کہ پاکستانی عوام نے پچھلا سال بجلی، گیس، کھاد اور آٹے کی تلاش میں گزارا۔ سیاسیات کے ممتاز ماہر پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ پچھلے ایک سال میں جمہوری حکومت سے وابستہ عوام کی توقعات پوری نہیں ہو سکی ہیں۔ ان کے مطابق عوام مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آمریت کی نسبت جمہوری حکومت سے عوام کی توقعات بہت زیادہ ہوتی ہیں لیکن پاکستان کی جمہوری حکومت کو ورثے میں جو سنگین مسائل ملے تھے، ان کے حل کے لئے اس کے پاس مناسب وسائل کا فقدان تھا۔

Gedenkveranstaltungen für Benazir Bhutto
گزشتہ برس انتخابات میں پیپلز پارٹی بر سر اقتدار آئی تھیتصویر: picture-alliance/ dpa

اسی ایک سال میں لا پتہ افراد کے رشتے داروں کو ان کے پیارے نہیں مل سکے۔ حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اپنے ہی لیڈر بے نظیر بھٹو کے قاتل تلاش نہ کر سکی۔ اسی سال جنرل پرویز مشرف اقتدار کے ایوانوں سے رخصت ہوئے۔ مفاہمت کے نتیجے میں وفاقی حکومت میں برسر اقتدار آنے والی دوبڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں فاصلے بہت بڑھ چکے ہیں۔ ن لیگ وفاقی حکومت سے الگ ہو چکی ہے اور شریف برادران پر نا اہلی کی تلوار لٹک رہی ہے۔

اب ایک مرتبہ پھر ملک میں لانگ مارچ کی خبریں سنائی دے رہی ہیں۔ لانگ مارچ کرانے والوں میں شامل پیپلز پارٹی کے ایک اہم رہنما چوہدری اعتزاز احسن کے پیپلز پارٹی سے "دیس نکالا " کے احکامات جاری کئے جا چکے ہیں۔

Pakistan Asif Ali Zardari neuer Präsident
حکمران اتحاد میں شامل دونوں بڑی جماعتیں زیادہ دن ساتھ نہ چل پائیںتصویر: AP

ایسے میں حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ جمہوری حکومت کو ورثے میں ملنے والے مسائل بہت شدید تھے۔ ان کے مطابق اس نئی جمہوری حکومت نے قومی مفاہمت کے فروغ کے لئے بہت کام کیا، بلو چستان کے مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنے کی کوشش کی۔ فاٹا اور صوبہ سرحد کے مسائل جنگ کی بجائے بات چیت سے حل کرنے کی طرف پیش رفت ہوئی لیکن ابھی بھی بہت کام کرنا باقی ہے۔ موجودہ حکومت کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس کا کہنا تھا کہ عدلیہ کی آزادی جمہوریت کی ترقی کے لئے بہت ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومتی ڈھانچے کی کارکردگی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔ کرپشن کو مکمل طور پر ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔ بیورو کریسی اور سیاستدانوں کے خلاف احتسابی عمل موثر بنانے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر رسول بخش رئیس کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ احتساب کا عمل اور عدلیہ کی آزادی جیسے امور کو دبایا جا رہا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم ان کو دباتے رہیں گے تو پھر جمہوری حکومت شخصی حکومت میں بدل جائے گی اور جمہوریت صرف نام کی رہ جائے گی۔