1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: دہشت گردی کی وجہ سے نجی سیکیورٹی گارڈز کی چاندی

رپورٹ: عروج رضا، ادارت: گوہر نذیر12 جون 2009

پاکستان میں شدت پسندی کے واقعات کے نتیجے میں جہاں کئی صنعتیں متاثر ہوئی ہیں وہیں ایک صنعت تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ وہ صنعت ہے نجی سیکیورٹی گارڈز کے اداروں کی۔

https://p.dw.com/p/I7jW
تصویر: AP

پاکستان میں پرتشّدد واقعات میں اضافے کے ساتھ ساتھ رہزنی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی وارداتوں کی وجہ سے شہریوں میں عدم تحفّظ کا احساس شدید تر ہوتا جا رہاہے۔

عوام کو جان و مال کا تحفّظ فراہم کرنے کی ذمہ داری سب سے پہلےحکومت پر عائد ہوتی ہے لیکن ملک میں جاری شدت پسندی کے باعث حکومت اس ذمہ داری کو پوری طرح سے نبھانے میں کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی۔

دوسری طرف عوام کو سیکیورٹی فراہم کرنے والے ادارے دن رات اپنی خدمات سر انجام دینے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ عام شہری سیکیورٹی گارڈز پر اعتماد کے ساتھ ساتھ ان کی ضرورت کو بھی محسوس کررہے ہیں۔

Anschläge in Pakistan
دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ سے عام لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس کئی گنا زیادہ بڑھ گیا ہےتصویر: AP

پاکستان کے دیگر شہروں کی طرح کراچی میں بھی یہ صنعت تیزی سے مقبول ہوتی جا رہی ہے۔ شہر میں رہزنی اور لوٹ مار کے دوران معصوم افراد کی جان لینے کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، جس کے نتیجے میں تقریباً ہر ادارے،کاروباری مرکز اور ’پوش‘ علاقوں میں لگ بھگ ہر بنگلے کے باہر ایک سیکیورٹی گارڈ کی ضرورت بڑھ گئ ہے۔

شہریوں کوسیکیورٹی گارڈز فراہم کرنے والے اداروں کی آل پاکستان سیکیورٹی ایجینسیز ایسوسی ایشن کے صدر راشد ملک کے مطابق ان کی فرم میں اس وقت تقریباً 2000 گارڈز صرف کراچی ہی میں درپیش مشکلات سے نمٹنے کے لئے خصوصی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ راشد ملک مزید کہتے ہیں کہ 10,000 تربیت یافتہ گارڈز شہریوں کی جان و مال کے تحفّظ کے لئے خدمات سرانجام دے رہے ہیں لیکن باوجود اس کے وہ گارڈز کی بڑھتی ہوئی طلب پوری کرنے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں۔

بعض اوقات انہیں شہریوں کی درخواستوں کومسترد کرنا پڑتا ہے کیونکہ اس وقت ان کی فرم میں گارڈز کی اتنی زیادہ تعداد نہیں ہے۔ راشد ملک کہتے ہیں کہ پاکستان میں فوج اور پولیس کے بعد سیکیورٹی گارڈز کو تیسری بڑی فورس ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

Lahore Pakistan Verdächtiger festgenommen
لوگوں کا سرکاری سیکیورٹی فورسز پر سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہےتصویر: AP

آل پاکستان سیکیورٹی ایجینسیز ایسوسی ایشن کے مطابق ملک میں اس وقت 600 سیکیورٹی مہیا کرنے والے ادارے کام کر رہے ہیں، جن میں سے صرف 200 ایجینسیز کراچی میں شہریوں کے جان ومال کے تحفّظ کے لئے کام کر رہی ہیں۔

راشد ملک خود ایک سیکیورٹی فرم کے مالک بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 14لاکھ آبادی کے اس شہرکو فرقہ وارانہ فسادات کے ساتھ ساتھ انتہا پسندی کا بھی سامنا ہے۔

ایک سٹیل امپورٹر محمد علی کے مطابق ملک میں عدم تحفّظ کے ماحول میں ان کے پاس اپنی املاک اور جان کی حفاظت کی خاطر سیکیورٹی گارڈز رکھنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں۔

خبر رساں اداروں کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق 170 لاکھ پاکستانیوں کے لئے 383,000 پولیس اہلکار اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں جبکہ صرف صوبہ سندھ ہی میں 99,000 پولیس اہلکار تعینات ہیں، اس کے باوجود ڈکیتی اور رہزنی کے واقعات پر پوری طرح سے قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔ کراچی شہر سمیت صوبے بھر میں 100,000 سیکیورٹی گارڈز گشت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

کراچی کے مرکزی علاقے گلبرگ کے ایک رہائشی محمد وسیم کہتے ہیں کہ سیکیورٹی گارڈز میں سے بعض چونکہ تربیت یافتہ نہیں ہوتے اس لئے انہیں انتہائی کم معاوضہ ادا کیا جاتا ہے۔

ایک کانسٹیبل کی ماہانہ تنخواہ ایک سو ڈالر سے زیادہ نہیں ہوتی جبکہ ڈیوٹی کے دوران مارے جانے کی صورت میں اس کے اہل خانہ کو زیادہ سے زیادہ چھ ہزار ڈالر کا معاوضہ ادا کیا جاتا ہے۔

دریں اثناء کراچی یونیورسٹی میں عمرانیات کے ماہر پروفیسر فتح محمد برفات کہتے ہیں کہ عدم تحفّظ کے کے اس ماحول میں شہریوں کو سیکیورٹی گارڈز پر بھروسہ کرنا ہی پڑتا ہے۔