1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’پاکستان دہشت گردی کے خلاف ٹھوس اور فوری کارروائی کرے‘

جاوید اختر، نئی دہلی
25 اکتوبر 2017

بھارت اور امریکا نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف ٹھوس اور فوری کارروائی کرنی چاہیے۔ ریکس ٹلرسن کا کہنا تھاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا بھارت کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہے۔

https://p.dw.com/p/2mU9F
Rex Tellorson mit Narendra Modi
تصویر: Govt. of India

دہلی کے دورے پر آئے ہوئے امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے اپنی بھارتی ہم منصب سشما سوراج کے ساتھ میٹنگ کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا ہے۔ اس موقع پر سشما سوراج نے کہا، ’’افغانستان میں حالیہ دنوں میں ہوئے دہشت گردانہ حملے ثابت کرتے ہیں کہ پاکستان کی سر زمین پر دہشت گردوں کے محفوظ اڈے سرگرم ہیں۔ پاکستان کو ان کے خلاف کارروائی کرنی ہوگی اور صدر ٹرمپ کی دہشت گردی کے خلاف پالیسی اسی وقت کامیاب ہوگی، جب پاکستان دہشت گرد گروپوں کے خلاف ٹھوس اور فوری کارروائی کرے گا۔‘‘

سشما سوراج کے بیان کی تائید کرتے ہوئے ریکس ٹلرسن کا کہنا تھاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا بھارت کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ دہشت گرد تنظیمیں پاکستان کے استحکام کے لئے بھی بڑا خطرہ بن گئی ہیں۔ اس معاملے میں امریکا پاکستان کی مدد کرنا چاہتا ہے اور یہ پاکستان کے اپنے مفاد میں ہوگا۔ ٹلرسن نے بتایا کہ منگل کو اسلام آباد میں پاکستانی رہنماوں کے ساتھ اس حوالے سے ان کی کھل کر بات ہوئی اور انہیں واشنگٹن کی توقعات سے آگاہ کردیا گیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے بھارت کو امریکا کا فطری اتحادی قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھارت امریکا کی افغان پالیسی کے لئے اہم ہے اور امریکا بھارت کو خطے کے لیڈر کے طور پر دیکھتا ہے۔ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف مل کر کام کرنے اور انٹیلی جنس معلومات ایک دوسرے سے شیئر کرنے سے بھی اتفاق کیا۔
سشما سوراج کا کہنا تھا، ’’بھارت اور امریکا اس امرکو یقینی بنانے کے لئے متفق ہیں کہ کوئی بھی ملک دہشت گردی کو محفوظ پناہ گاہ فراہم نہ کر سکے اور جو ملک بھی دہشت گردی کی حمایت کرتے ہیں یا دہشت گردی کا استعمال کرتے ہیں انہیں اس کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔‘‘
بھارتی وزیر خارجہ نے بھارت امریکا اور افغانستان کے سہ فریقی اجلاس کے جلد انعقاد کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک افغانستان کی حکومت اور امریکا سمیت بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر ایک محفوظ، مستحکم، ترقی پسند، پرامن اور جمہوری افغانستان کے قیام کے اپنے عہد پر قائم ہے۔
پریس کانفرنس کے دوران بھارتی وزیر خارجہ نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ امریکی رہنما کے ساتھ شمالی کوریا کے مسئلے پر بھی بات چیت ہوئی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیابھارت نے شمالی کوریا سے اپنے تجارتی تعلقات ختم کر لئے ہیں تو انہوں نے کہا کہ اس ملک کے ساتھ ہماری تجارت بہت کم ہے۔ شمالی کوریا میں بھارتی سفارت خانہ بند کرنے کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں سشما سوراج کا کہنا تھا کہ بھارتی سفارت خانہ وہاں صرف کمیونیکیشن کے لئے ہے اور وہ اور امریکی وزیر خارجہ اس پر متفق ہیں۔ دوسری طرف ٹلرسن نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ امریکا ایرنی عوام کو نقصان پہنچانا نہیں چاہتا اور وہاں اعتدال پسند آوازوں کی حمایت کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکا ایران کی یورپ اور بھارت کے مابین قانونی تجارتی سرگرمیوں میں مداخلت نہیں کرے گا۔
مسٹر ٹلرسن حالیہ دنوں میں ہندوستان کے دورہ پر آنے والے دوسرے بڑے امریکی رہنما ہیں۔ اس سے قبل گزشتہ ماہ وزیر دفاع جیمز میٹس بھارت آئے تھے۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے سشما سوراج اور ریکس ٹلرسن کی ملاقات کو مثبت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے دونوں ملکوں کے درمیان اسٹریٹیجک پارٹنرشپ کو مزید استحکام حاصل ہوگا۔
قبل ازیں امریکی وزیر خارجہ نے بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال سے بھی ملاقات کی۔ تقریباً ایک گھنٹے تک چلنے والی میٹنگ میں ڈوبھال نے افغانستان اور بھارت میں مبینہ پاکستانی اعانت سے دہشت گردی کے واقعات کا معاملہ اٹھایا۔
مسٹر ٹلرسن نے وزیر اعظم نریندر مودی سے بھی ملاقات کی۔ ذرائع کے مطابق دونوں رہنماوں نے بھارت امریکا تعلقا ت نیز خطے میں پیدا سکیورٹی چیلنجز اور دیگر امور پر با ت چیت کی۔ ٹلرسن کا بھارت کا دورہ ایک ایسے وقت ہورہا ہے، جب ٹرمپ حکومت اپنی افغان پالیسی میں بھارت کو ایک ’بڑے کردار‘ میں دیکھنا چاہتی ہے۔

Indien US-Außenminister Rex Tillerson am Gandhis Denkmal
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Brandon
Indien US-Außenminister Rex Tillerson und Außenministerin Sushma Swaraj
تصویر: picture-alliance/abaca/I. Khan

امریکا کے صدر اگلے ماہ کے اوائل میں چین کا دورہ کرنے والے ہیں۔ اس کے مدنظر بھی ٹلرسن کے اس دورے کو کافی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ بھارت آنے سے قبل وہ افغانستان اور پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں۔