1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان سے مسلم، غیر مسلم اقلیتوں کی رخصتی کے اسباب

شمشیر حیدر10 اکتوبر 2015

پاکستان میں کئی برسوں سے جاری ہلاکت خیز دہشت گردانہ اور فرقہ ورانہ حملوں میں سب سے زیادہ جانی نقصان مذہبی اور مسلکی اقلیتوں کو اٹھانا پڑا ہے۔ اسی وجہ سے ان اقلیتوں میں پاکستان سے ہجرت کا رجحان بھی نسبتاﹰ زیادہ ہے۔

https://p.dw.com/p/1GmAi
Protest von pakistanischen Christen nach Anschlägen auf Kirchen in Lahore
ہاکستانی مسیحی برادری کی خواتین ایک مظاہرے کے دوران اپنے لیے تحفط کا مطالبہ کرتے ہوئے، فائل فوٹوتصویر: Reuters/Mani Rana

یورپ کی جانب ہجرت کرنے والے لاکھوں افراد میں پاکستانیوں کی بھی بڑی تعداد شامل ہے۔ پاکستان سے نقل مکانی کے متعدد اور متنوع اسباب میں سے دہشت گردی اور فرقہ ورانہ تشدد بھی اہم وجوہات ہیں۔ مائناریٹی رائٹس گروپ انٹرنیشنل نامی تنظیم نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ 1999ء سے 2003ء تک صرف کراچی شہر ہی میں 50 شیعہ ڈاکٹروں کو قتل کر دیا گیا تھا جب کہ اسی عرصہ میں قریب 500 شیعہ ڈاکٹر پاکستان سے دوسرے ممالک کی جانب ہجرت بھی کر گئے تھے۔ احمدی عقیدے کے پیروکاروں کے علاوہ مسیحی، ہندو، پارسی اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے حالات بھی زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ اس حوالے سے ڈی ڈبلیو نے مختلف مذاہب اور مسالک سے تعلق رکھنے والی متعدد شخصیات سے ان کی رائے دریافت کی:

پاکستان شیعہ مسلمانوں کے لیے کتنا محفوظ؟

پاکستان میں حالیہ برسوں میں شدت پسند تنظیموں کے ارکان کے پرتشدد حملوں میں سب سے زیادہ ہلاکتوں کا سامنا شیعہ برادری کو کرنا پڑا۔ رواں برس اب تک 150 سے زائد شیعہ پاکستانی ہلاک کیے جا چکے ہیں۔ 2013ء اس مذہبی اقلیت کے لیے سب سے خونریز سال ثابت ہوا تھا، جب 600 سے زائد اہل تشیع مارے گئے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق صوبہ بلوچستان میں ہزارہ شیعہ برادری سے تھا۔

اسی برادری سے تعلق رکھنے والے مشتاق نامی ایک شہری نے بھی ان حملوں کے بعد پاکستان سے ہجرت کا فیصلہ کیا۔ اس نے آسٹریلیا جانے کے لیے غیر قانونی سمندری راستہ اختیار کیا۔ مشتاق نے اپنی کہانی سناتے ہوئے کہا، ’’میں پاکستان میں ہی رہنے کا سوچتا تھا تو مجھے اپنے قتل ہو جانے کا ڈر لگا رہتا تھا۔ جب میں سمندر میں بپھری لہروں کو دیکھتا تھا تو مجھے مرنے سے خوف آتا تھا۔ تب موت دونوں ہی طرف میری منتظر تھی۔ لیکن میں سوچتا تھا کہ اگر آسٹریلیا پہنچ جاؤں، تو نئی زندگی شروع کر سکوں گا۔‘‘

اسی طرح کراچی کے رہنے والے علی زیدی نے، جو ایک مقامی میڈیا گروپ سے وابستہ ہیں، ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں بتایا کہ رواں برس اپنے سسر کے قتل کے بعد سے وہ بھی اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے ملک چھوڑنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ 2010ء میں لاہور کی کربلا گامے شاہ میں ہوئے ایک خودکش بم حملے میں زخمی ہونے والوں میں ڈاکٹر حسن (فرضی نام) بھی شامل تھے۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اس حملے کے بعد تو انہوں نے پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ نہیں کیا تھا لیکن اب ان سے ’حکومتی اور معاشرتی بے حسی برداشت نہیں ہوتی۔ ‘‘ انہوں نے کہا، ’’اب تو میں اپنے گھر میں بھی یہ خطرہ محسوس کرتا ہوں کہ کسی بھی وقت کوئی بھی مذہبی انتہا پسند میرے گھر پر حملہ کر دے گا۔‘‘

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے حیدر کسی صورت بھی پاکستان نہیں چھوڑنا چاہتے۔ وہ عدم برداشت اور تعصب کی اس فضا کا ذمہ دار سبھی فرقوں کے علماء کو قرار دیتے ہیں۔ حیدر کے مطابق، ’’ یہ لوگ کھلی محفلوں میں تو یکجہتی کی تلقین کرتے ہیں لیکن نجی محفلوں میں دوسرے مسالک کے لوگوں کے قتل کو جائز قرار دیتے ہیں۔‘‘

Trauer und Protest nach Bombenanschlag in Quetta Pakistan
کوئٹہ میں ہزارہ شیعہ برادری کی بچیاں خونریز فرقہ واریت کے خلاف مظاہرہ کرتےہوئے، فائل فوٹوتصویر: Reuters

احمدیوں کے خلاف تعصب

جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والوں کو پاکستان میں سرکاری طور پر غیر مسلم قرار دیا جا چکا ہے۔ انہیں عام پاکستانی شہریوں کے طور پر زندگی گزارنے میں واضح مشکلات کا سامنا ہے۔ لاہور کے ایک کالج کے لیکچرار ڈاکٹر احمد (فرضی نام) بھی خود کو پاکستان میں غیر محفوظ تصور کرتے ہیں۔ 2010ء میں لاہور میں احمدیوں کی ایک عبادت گاہ پر ہوئے خونریز حملے میں ان کے ایک کزن بھی ہلاک ہو گئے تھے۔ ڈاکٹر احمد اس وقت اسی عبادت گاہ میں موجود تھے۔ اس حملے میں 80 سے زائد افراد ہلاک اور 120 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ ڈاکٹر احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ان زخمیوں میں سے 40 ایسے تھے جن کی ٹانگیں کٹ گئی تھیں، 19 کے ایک یا دونوں بازو بھی کٹ گئے تھے۔ اس کے علاوہ پانچ زخمیوں کی آنکھیں بھی ناکارہ ہو گئی تھیں۔‘‘

ڈاکٹر احمد کو اپنے تدریسی فرائض کی انجام دہی کے دوران نہ صرف ساتھی اساتذہ بلکہ طالب علموں کی طرف سے بھی تعصب اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے بقول انہیں پی ایچ ڈی ڈگری ہونے کے باوجود طویل عرصے سے دانستہ ترقی نہیں دی گئی۔ ڈاکٹر احمد بھی اب پاکستان سے نقل مکانی کرنا چاہتے ہیں: ’’میں تو 20 سال پہلے ہی پاکستان چھوڑنا چاہتا تھا لیکن میں ایسا نہ کر سکا۔ اب میں جلد از جلد یہاں سے نقل مکانی کرتے ہوئے اپنے بیوی بچوں کو کسی محفوظ جگہ لے جانا چاہتا ہوں تاکہ ان کا مستقبل یہاں برباد نہ ہو۔‘‘

مسیحی مذہبی اقلیت کی حالت

پاکستان کی مسیحی برادری کے ارکان کی ایک بڑی تعداد کو بھی دہشت گردانہ حملوں اور سماجی عدم مساوات کے باعث کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ زیادہ تر مسیحی شہری اپنے خلاف توہین مذہب کے پاکستانی قانون کے ممکنہ غلط استعمال کے خطرے کے ہاتھوں پریشان ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے مسیحی عبادت خانوں پر دہشت گردانہ حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ لاہور اور پشاور میں گرجا گھروں پر کیے گئے صرف بڑے دہشت گردانہ حملوں میں ہی 100 سے زائد مسیحی ہلاک ہوئے تھے۔

لاہور کے شہری یوسف بھی مسیحی برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ایک نجی ادارے میں چپڑاسی کی ملازمت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے اچھے مستقبل کے لیے یورپ کی طرف ہجرت کرنا چاہتے ہیں لیکن ’وسائل اجازت نہیں دیتے‘۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا، ’’یورپ میں شاید میرے بچوں کا کوئی مستقبل بن جائے، یہاں رہ کر شاید وہ بھی میری طرح زیادہ ترقی نہ کر سکیں۔‘‘

Pakistan zerstörtes Hindu Tempel in Karatschi
کراچی میں گرا دیا جانے والا مقامی ہندو اقلیت کا ایک مندر، فائل فوٹوتصویر: RIZWAN TABASSUM/AFP/Getty Images

پاکستانی ہندو ملک کیوں چھوڑ رہے ہیں؟

پاکستان میں ہندوؤں کی تعداد قومی آبادی کا 2.5 فیصد ہے، جن کی اکثریت جنوبی صوبہ سندھ میں آباد ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ہندوؤں میں عدم تحفظ کا احساس تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ پاکستانی ہندوؤں کی ایک فلاحی تنظیم ’ہندو سیوا‘ کے مطابق 2008ء سے ہر ماہ قریب 10 ہندو خاندان پاکستان سے ہجرت کر رہے تھے، جب کہ 2012 میں یہی تعداد کہیں زیادہ ہو چکی تھی۔

اس بارے میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان HRCP کی سندھ شاخ کے ایک عہدیدار امرناتھ موتومال نے، جو خود بھی ایک ہندو ہیں، ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی ہندوؤں میں ان کی تیز رفتار نقل مکانی کی ایک اہم وجہ یہ خوف بھی ہے کہ انہیں ممکنہ طور پر اپنے مذہب کی جبری تبدیلی پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔

بہت چھوٹی پارسی مذہبی اقلیت

پاکستان میں آباد بہت چھوٹی مذہبی اقلیتوں میں پارسی بھی شامل ہیں، اور وہ بھی مغربی ملکوں کی طرف نقل مکانی کر رہے ہیں۔ پاکستان میں پارسیوں کی بہت تھوڑی آبادی مزید کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس اقلیت سے تعلق رکھنے والے 37 سالہ فوٹوگرافر ایزدیار سیتنا کا کہنا ہے، ’’پارسیوں کے پاکستان چھوڑنے کی اہم وجہ سکیورٹی کی صورت حال ہے۔ لوگ موجودہ حالات سے خوفزدہ ہیں اور نہیں جانتے کہ بہتری کب آئے گی۔‘‘ بین الاقوامی سطح پر امریکا اور کینیڈا میں پارسیوں کی آبادی مقابلتاﹰ کہیں زیادہ ہے۔ ایزدیار کے مطابق پاکستانی پارسیوں کو ترک وطن کے لیے جس ملک کا ویزا بھی آسانی سے مل جائے، وہ اسے پاکستان پر ترجیح دیتے ہیں۔