1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں امدادی اشیا کی فروخت

17 ستمبر 2010

پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں جرائم اور امدادی اشیاء کی فروخت کے باعث فلاحی سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ بین الاقوامی امدادی اداروں کی جانب سے فراہم کیا جانے والا سامان کھلے عام فروخت کیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/PEDY
تصویر: AP

صوبہ خیبر پختونخواہ کے دارالحکومت پشاور میں یوایس ایڈ اور دیگر بین الاقوامی امدادی تنظیموں کے نشان والے آٹے کے تھیلے اور کھانے کے تیل کے ڈبے کھلے عام فروخت ہو رہے ہیں۔ پشاور کی گڑ منڈی کے ایک دکاندار عبدالغفور نے خبررساں ادارے روئٹرز کو بتایا، ’ہم نے یہ سامان متاثرین سیلاب سے خریدا ہے۔ وہ اس رقم سے ضرورت کی دیگر اشیاء خریدتے ہیں۔‘

اس کے برعکس ایک دوسرے دکاندار رحیم اللہ خان نے کہا، ’اس میں سرکاری اہلکار ملوث ہیں، ان کے بغیر یہ کام نہیں ہو سکتا۔ متاثرین ان اشیاء کے ٹرک بھر کر نہیں لا سکتے۔‘

روئٹرز نے اپنے ایک نامہ نگار کے حوالے سےبتایا کہ ایک ٹرک سے آٹے کے تھیلے اتارے گئے، جن پر یہ تحریر درج تھی، ’متاثرین سیلاب کے لئے امدادی سامان، برطانیہ کی مسلم چیریٹی کی جانب سے۔‘

یہ سامان بعدازاں سستے داموں فروخت کر دیا جاتا ہے۔ آٹے کے ایک تاجر نجیب احمد ‌خان نے بتایا، ’میں 50 کلوگرام کے تھیلے پر تین سو روپے بچا سکتا ہوں۔ گاہگ یہی آٹا خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ یہ سستا بھی ہے اور معیاری بھی۔‘

دوسری جانب حکومتی اہلکار اس صورت حال پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ضلعی حکام نے ایسے دو گوداموں پر چھاپا مارا ہے، جہاں چوری شدہ امدادی سامان رکھا گیا تھا۔ ان گوداموں پر تالے ڈال دیے گئے جبکہ دو افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔

ضلعی حکومت کے اہلکار سراج احمد کا کہنا ہے، ’ایسی غیرقانونی سرگرمیوں کو روکنے کے لئے ایک کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔‘

دوسری جانب پاکستان کے صوبہ پنجاب میں بعض افراد نے بتایا کہ سیلاب زدگان کی جانب سے چھوڑے گئے گھروں کو لُوٹنےکی وارداتیں بھی ہوئی ہیں۔ محمود کوٹ نامی ایک گاؤں کے رہائشی رانا فرمان اللہ نے بتایا کہ ڈاکو کشتیوں پر آئے اور گاؤں لُوٹ کر چلے گئے۔ فرمان اللہ نے کہا، ’وہ سب کچھ لے گئے، ہر قیمتی چیز، برقی آلات جن میں واشنگ مشینیں، پنکھے اور ریفریجریٹر شامل تھے۔‘

اُدھر بھکر میں دریائے سندھ کے کنارے موجود ماہی گیروں نے بتایا کہ وہ چوری کے خدشے سے اپنی کشتیوں کے انجن نکال لیتے ہیں۔

رپورٹ: ندیم گِل

ادارت: عدنان اسحاق