1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں ایمرجنسی، جرمن پریس کے تبصرے

5 نومبر 2007

جرمن شہر فرینکفرٹ سے شائع ہونےوالے اخبار فرانکفرٹر الگمائنے نے اپنے تبصرے میں لکھا ہے کہ اسلام آباد میں جمہوریت اور استحکام کا وہ محل ریت کا گھروندہ ثابت ہوا ہے، جو واشنگٹن نے مشرف کے اردگرد تعمیر کیا تھا۔

https://p.dw.com/p/DYGM
تصویر: dpa

فرینکفرٹ ہی کے اخبار فرانکفرٹ رُنڈ شاؤ کے مطابق مشرف سمجھ رہے ہیں کہ اُنہیں جمہوری عمل کی کوششوں، عدلیہ اور اپوزیشن کے خلاف شاندار فتح حاصل ہوئی ہے لیکن یہ ایک ایسی فتح ہے، جس کا نقصان خود مشرف کو بھی ہو گا اور جس کی پاکستان کو بھی بھاری قیمت چکانا پڑ سکتی ہے۔

فائنانشل ٹائمز جرمنی کے مطابق پاکستان میں ایمرجنسی کا نفاذ مشرف کی طرف سے اقتدار پر ایک بار پھر طاقت کے ذریعے قبضہ ہے۔ اُنہوں نے ایک خطرناک کھیل کھیلا ہے، جس سے امریکہ میں اُن کی ساکھ پر تو منفی اثر پڑے گا ہی، پاکستان کے اندر بھی اُن سے وابستہ کی جانے والی وہ آخری اُمید دم توڑ جائے گی کہ مشرف کے ذریعے ملک میں جمہوریت لائی جا سکتی ہے۔

جرمن اخبار Rheinische Post لکھتا ہے: قابلِ نفرت ہیں وہ طریقے، جن کی مدد سے مغربی دُنیا کے اہم ترین حلیفوں میں سے ایک یعنی پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف دہشت گردی کے خلاف جنگ کر رہا ہے، تشدد، من مانی کارروائیاں اور اپوزیشن۔ اُن کی فوجی حکومت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی فہرست نہ ختم ہونے والی ہے۔ لیکن مغربی دُنیا، خاص طور پر امریکہ طویل عرصے تک اِس ساری صورتحال کو نظر انداز کرتا رہا ہے کیونکہ اسلامی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ناپسندیدہ اقدامات پر عملدرآمد کے لئے مشرف کی ضرورت تھی۔ پاکستان ہِل رہا ہے اور جمہوریت کا ہوائی قَلعہ منہدم ہو چکا ہے۔ موجودہ صورتِ حال نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دُنیا کےلئے تاریک امکانات لئے ہوئے ہے۔

Neue Osnabrücker Zeitung کےمطابق مشرف خود کو ایک جمہوریت پسند رہنما کے طور پر پیش کرتے ہیں لیکن اُن کے عملی اقدامات ایک ڈکٹیٹر کے ہیں۔ بُش ایسا نہیں کر سکتے کہ ایک طرف تو جمہوریت کی تبلیغ کریں اور دوسری جانب اِس طرح کی آمریت کو اربوں ڈالر کی رقوم سے نوازیں۔

اخبار Berliner Zeitung لکھتا ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں پاکستانی اپوزیشن کو ہرگز پیچھے ہَٹ کر نہیں بیٹھنا چاہیے کیونکہ اُسے عوام کی ایک بڑی تعدادکےساتھ ساتھ پہلی بار امریکہ کی بھی حمایت حاصل ہے۔ یہ امریکہ ہی تھا، جس کی کوششوں سے مشرف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان شراکتِ اقتدار پر بات آگے بڑھی۔ انتخابات ملتوی کر کے مشرف کو کچھ مہلت تو ضرور مل جائے گی لیکن اِس جنرل کی لامحدود حکومت کے خاتمے کا وقت اب آن پہنچا ہے۔

برلن ہی کے آزاد خیال اخبارTageszeitung کے مطابق جلد یا بدیر مشرف کی طاقت کے بڑے سرچشمے یعنی فوج کو بھی یہ پتہ چل جائے گا کہ اُس کے اور اُس کے چیف آف سٹاف کے مفادات اب ایک نہیں رہے۔