1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں باراک اوباما کے چرچے

تنویر شہزاد، لاہور21 جنوری 2009

آج کل پاکستان میں ہر جگہ نئے امریکی صدرباراک اوباما کے چرچے ہو رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/Gdr5
باراک اوباما اپنی اہلیہ مشئیل اوباما کے ہمراہ ، تقریب حلف برداری کے موقع پرتصویر: AP

گلیوں، بازاروں اور دفتروں میں ہونے والی گفتگو میں ہی نہیں بلکہ ٹی وی چینلوں، ریڈیو پروگراموں اور اخباری کالموں میں بھی باراک اوباما واضح طور پر نظر آ رہے ہیں۔

پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد نے بڑے ٹی وی چینلوں کے ذریعے باراک اوباما کی حلف برداری کی تقریب کو براہ راست دیکھا جبکہ اخبارات نے بھی اس کی کوریج کو نمایاں طور پر شائع کیا۔ پاکستان کے زیادہ تر اخبارات نے صدر اوباما کی تقریر کے اس حصے کو شہہ سرخیوں میں شائع کیا ہے جس میں انہوں نے مسلم دنیا سے تعلقات کی نئی راہیں تلاش کرنے کی بات کی ہے ۔ کئی پاکستانی اخبارات نے اوباما کی حلف برداری کی خبروں کے ساتھ ساتھ سابق صدر بش کی رخصتی کی خبروں کو بھی تنقیدی تبصروں کے ساتھ شائع کرنا مناسب سمجھا ہے ۔

روزنامہ نوائے وقت کے ایک کارٹون میں صدر بش کو سر پر جوتا اوڑھے وائٹ ہائوس سے واپس جاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ روزنامہ آج کل نے صفحہ اول پر اوباما اور بش کی چار کالمی تصویروں کے ساتھ یہ سرخی لگائی ہے کہ " اوبامہ چھا گئے ۔ بش کا سورج غروب " ۔ ڈیلی نیوز نے سفید اور سیاہ رنگوں کا فرق نمایاں کرتے ہوئے اپنی ہیڈ لائن میں لکھا First Black President in White House یعنی "پہلا سیاہ فام صدر ۔ وائٹ ہائوس میں"۔

مقامی طور پر شائع ہونے والے ایک اخبار کی یہ سرخی تھی " بیس لاکھ کے جھرمٹ میں، غلاموں کو سلامی۔ امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ، سیاہ فام صدر وائٹ ہائوس آ گیا ۔ شام کے ایک اخبار نے اپنے پہلے صفحہ پر یہ سرخی جمائی " بش رخصت ۔ اوبامہ آگیا ۔ امریکہ میں تبدیلی ۔ بھارت پریشان ۔ نئے امریکی صدر کی ترجیحات میں مسئلہ کشمیر شامل ۔ روز نامہ جنگ نے " کیا صدر اوباما امریکی پالیسیاں تبدل کر سکیں گے " کے عنوان سےلکھے گئے اپنے اداریے میں کہا ہے کہ مشر ق وسطیٰ اور جنوبی ایشاء میں قیام امن کے لئے ضروری ہے کہ باراک اوباما اپنی ترجیحات میں فلسطین اور کشمیر کو بھی شامل کریں۔

ڈیلی ٹائمز نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ پاک بھارت امن مذاکرات کی بحالی بھی باراک اوباما کے لئے ایک چیلنج ہو گا۔ اخبار لکھتا ہے کہ پاکستان کے لئے سب سے سنگین مسئلہ واشنگٹن کی بجائے اسلام آباد سے ابھرے گا جہاں سیاست ایک بار پھر تصادم کی راہ پر گامزن ہوتی نظر آ رہی ہے اور سیاست دان ایک مرتبہ پھر حکومتیں گرانے کا عمل شروع کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ پاکستان کے زیادہ تر عام لوگوں کا خیال ہے کہ اوباما کے اقتدار میں آنے سے پاکستان کے حالات پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔

ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے متعدد شہریوں کا کہنا تھا کہ ملک میں ماضی کی طرح پالیسیاں امریکی دباؤ کے تحت بنائی جاتی رہیں گی اور امریکہ میں طاقت ور لابیوں، مضبوط اسٹیبلشمنٹ ،موثر تھنک ٹینکس اور متعصب ذرائع ابلاغ کی موجودگی میں اوباما کے لئے آزادنہ پالیسیاں بنانا آسان نہیں ہو گا جبکہ ممتاز تجزیہ نگار شفقت محمود کا کہنا تھا کہ باراک اوباما نے اب تک جو باتیں کی ہیں ان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ افغانستان کے مسئلے کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور یہ قدرتی بات ہے کہ اگر وہ افغانستان کو اہمیت دیتے ہیں تو ان کے لئے پاکستان کو نظر انداز کرنا مشکل ہو گا ۔ ان کے مطابق ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان اور افغانستان سمیت جنوبی ایشیاء کا یہ خطہ صدر اوباما کی توجہ کا مرکز ہو گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ صدر بش کی بری پالیسیوں کی وجہ سے لوگوں کا صدر اوباما سے توقعات وابستہ کرنا ایک فطری عمل ہے ۔