1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں تلور کا شکار: اجازت نامے منسوخ، ملک گیر پابندی

شکور رحیم، اسلام آباد19 اگست 2015

پاکستانی سپریم کورٹ نے سائبیریا سے ہجرت کر کے پاکستان آنے والے پرندے تلور کے شکار پر ملک گیر پابندی عائد کر دی ہے۔ عدالت نے تلور کے شکار کے لیے جاری کردہ تمام سرکاری اجازت نامے بھی منسوخ کر دیے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1GHxg
تصویر: picture-alliance/Arco Images

عدالت نے ملکی وزارت خارجہ کو اس پرندے کے شکار کے لیے مزید اجازت نامے جاری کرنے سے بھی روک دیا ہے۔ پاکستانی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ نے تلور کے غیر قانونی شکار کو روکنے کے لیے ایک بزنس مین عامر ظہور الحق کی درخواست کو سماعت کے لیے منظور کر لیا۔ عدالت نے تلور کے شکار پر پابندی کے سندھ اور بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلوں کے خلاف صوبائی حکومتوں کی اپیلیں بھی خارج کر دیں۔

آج بدھ انیس اگست کو سماعت کے دوران درخواست گزار عامر ظہور کے وکیل راجہ فاروق نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عالمی معاہدوں کے تحت حکومت پاکستان تلور کے شکار کی اجازت نہیں دے سکتی۔ انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود وزارت خارجہ عرب شہزادوں کو تلور کے شکار کے پرمٹ جاری کرتی ہے۔ بنچ میں شامل جسٹس دوست محمد نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ سیکرٹری خارجہ کس قانون اور اتھارٹی کے تحت شکار کے پرمٹ جاری کرتے ہیں؟

انہوں نے کہا کہ آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد جنگلی حیات کا محکمہ صوبوں کو منتقل ہو گیا ہے۔اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے عدالت کو بتایا کہ تلور کے شکار کے پرمٹ جاری کرتے ہوئے بیرونی ممالک کے ساتھ تعلقات کو بھی دیکھنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تلور کا شکار ایک کھیل ہے اور حکومت تلور کے شکار کے لیے خود دعوت نامے بھیجتی ہے۔ اس پر جسٹس دوست محمد نے کہا کہ یہ کوئی ثقافتی ورثے کا شو نہیں کہ دعوت نامے بھیجے جائیں بلکہ یہ قانون اور اتھارٹی کا غلط استعمال ہے۔

چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ یہ کوئی کھیل نہیں بلکہ نایاب پرندوں کا شکار ہے اور یہ ملکی آئین کے آرٹیکل پانچ کی خلاف ورزی ہے۔ دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ کیا غیرملکیوں کو یہاں قتل کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ غیر ملکی مہمان بھی آئین پاکستان کے پابند ہیں۔ عالمی معاہدوں کی پاسداری کی جائے لیکن ملکی قوانین کو مذاق نہ بنائیں۔

عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد ملک بھر میں تلور کے شکار پر پابندی عائد کردی۔ عدالتی فیصلے کے بعد ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے راجہ فاروق نے کہا کہ عدالتی فیصلہ ملک میں قانون کی حکمرانی اور جنگلی حیات اور نایاب پرندوں کے تحفظ کی سمت اہم قدم ہے۔ انہوں نے کہا، ’’پاکستان بون کنونشن اور اقوام متحدہ کے ماحولیاتی تحفظ اور دیگر عالمی معاہدوں کے تحت نایاب نسل کے پرندوں کی حفاظت کا ذمہ دار ہے۔ لیکن ان معاہدوں کی خلاف ورزی خود وفاقی اور صوبائی حکومتیں کر رہی تھیں تاہم اب عدالتی حکم کے بعد اس ماحول دوست پرندے کا شکار رک جائے گا جس سے اس کو کم ازکم پاکستان کی حد تک معدوم ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔‘‘

Kragentrappe und Falke
ایک باز اپنے شکار کردہ تلور کے ساتھ، فائل فوٹوتصویر: Getty Images/Afp/Karim Sahib

ہر سال ستمبر سے فروری کے دوران سائبیریا سے ہزاروں کی تعداد میں تلور ہجرت کر کے پاکستان کے چاروں صوبوں کے مخلتف علاقوں میں موسم سرما گزارنے آتے ہیں۔ مختلف اندازوں کے مطابق ہجرت کرنے والے ان پرندوں کی تعداد عام طور پر آٹھ سے دس ہزار تک ہوتی تھی جو اب کم ہوتی جا رہی ہے۔اس کے علاوہ یہاں آنے والے پرندوں میں سے ہزاروں کو مقامی اور غیر ملکی شکاریوں خصوصاﹰ خلیجی ممالک کے شاہی خاندانوں کے ارکان کی طرف سے شکار کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔

راجہ فاروق کے مطابق سن دو ہزار چودہ میں دفتر خارجہ نے تلور کے شکار کے لیے تینتیس پرمٹ جاری کیے۔ ایک پرمٹ میں ایک سو پرندوں کے شکار کی اجازت ہوتی ہے۔ راجہ فاروق کے مطابق صرف ایک دن میں بائیس سو تلور شکاریوں کا نشانہ بنے۔

پاکستان میں تلور کے شکار کے لیے نہ صرف بندوقوں کا استعمال کیا جاتا ہے بلکہ عرب شہزادے اپنے ہمراہ لائے جانے والے باز بھی تلور کے شکار کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جنگلی حیات اور پرندوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق مارے جانے والے تلور کے علاوہ عرب شکاری بہت سے تلور اپنے ہمراہ زندہ بھی لے جاتے ہیں جنہیں شکاری بازوں کو سدھانے اور شکار کی تربیت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

پاکستان کے ہمسایہ ملک بھار ت میں بھی تلور کے شکار پر پابندی عائد ہے۔