1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں توہین رسالت کے مبینہ الزام میں نوعمر لڑکا گرفتار

2 فروری 2011

پاکستان میں پولیس نے امتحانی پرچے میں مبینہ طور پر توہین رسالت کے مرتکب گستاخانہ کلمات تحریر کرنے کے الزام میں ایک نو جوان لڑکے کو گرفتار کیا ہے۔ گرفتاری کے بعد ایک بار پھر اس مسلم ملک کا یہ سخت قانون توجہ کا مرکز بن گیا

https://p.dw.com/p/10932
تصویر: picture-alliance / dpa

خبر رساں ایجینسی اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے پولیس کے تفتیشی افسر قدرت شاہ لودھی نے بتایا کہ کراچی سے تعلق رکھنے والے سمی اللہ نام کے اس لڑکے نے امتحانات کے دوران توہین رسالت کے مرتکب کلمات تحریر کیے تھے جس کی اطلاع ممتحن نے پولیس کو دی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ نجی طور پر تعلیم حاصل کرنے والے 17 سالہ اس مسلم نوجوان نے امتحانی بورڈ سے اپنے اس فعل کی معافی بھی مانگی تھی تاہم اس کو رد کرتے ہوئے اس کے اس عمل کو پولیس میں رپورٹ کر دیا گیا۔

لودھی کے مطابق سمی کو پولیس نے کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد سے 29 جنوری کو گرفتار کرتے ہوئے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ہے۔

Pakistan Mumtaz Qadri Mord Gouverneur Salman Taseer
گونر سلمان تاثیر کے قتل کا محرک توہین رسالت کے قانون میں ردوبدل کی حمایت تھا، قاتل ممتاز قادریتصویر: AP

پولیس نے امتحانی پرچے میں تحریر ان کلمات کو سامنے لانے سے انکار کر دیا ہے۔ پولیس خائف ہے کہ ان کلمات کو دھرانے یا سامنے لانے سے وہ انہیں بھی توہین رسالت کے قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار نہ دے دیا جائے۔

دوسری جانب انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ (HRW) نے گرفتار نوجوان کے خلاف بنایا گیا مقدمہ واپس لینے اور فوری طور پر اُس کی باحفاظت رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کے لیے بچوں کے حقوق پر تحقیق کرنے والی ایک سینئر اہلکار بیڈی شیفرڈ کا کہنا ہے، " جب توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال کی بات آتی ہے تو پاکستان نے اس معاملے میں عدم رواداری کا ایک معیار قائم کر دیا ہے لیکن ایک اسکول جانے والے لڑکے کو امتحانی پرچے پر کچھ تحریر کرنے پر جیل بھیج دینے کا اقدام سچ میں بہت ہولناک ہے۔" وہ مزید کہتی ہیں کہ اسکول کی انتظامیہ کی جانب سے اس معاملے کو اچھالنا ہی کچھ کم نہ کہ اب پولیس اور عدالتی حکام کی جانب سے اس نوجوان کو جیل بھیج دیا گیا۔

Demonstration für Asia Bibi in Pakistan
حقوق انسانی کی تنظیمیں توہین رسالت کے قانون کے خاتمے کی حمایت میں ہیںتصویر: picture alliance/dpa

پاکستان میں حقوق انسانی کے علمبرداروں اور آزاد خیال سیاست دانوں کے مطابق ملک میں توہین رسالت کے مرتکبوں کے لیے سزائے موت کی زیادہ سے زیادہ سزا رکھنے والے اس قانون کو نہ صرف اکثر ذاتی دشمنیاں اور اختلافات کا بدلا لینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے بلکہ اس سے اسلامی شدت پسندی کے جذبات کو بھی حوصلہ افزائی ملتی ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان میں توہین رسالت کا جرم ثابت ہونے پر موت کی سزا پانے والے افراد اپیل کے زریعے اس سزا میں تخفیف یا تبدیلی بھی کروا سکتے ہیں۔

یہ کیس، توہین رسالت کے قانون میں اصلاحات متعارف کروانے کے حامی اور ملک کے آزاد خیال سیاستدانوں میں سے ایک تصور کیے جانے والے پنجاب کے گونر سلمان تاثیر کے قتل کے ایک ماہ بعد سامنے آیا ہے۔ان کے حفاظتی دستے کے ایک اہلکار نے گزشتہ ماہ توہین رسالت کے قانون کے حوالے سے خیالات کا اظہار کرنے کی پاداش میں انہیں قتل کر دیا تھا۔

رپورٹ: عنبرین فاطمہ

ادارت: کشور مصطفیٰ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں