1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں خوشی منانے کے لیے ہوائی فائرنگ کا خطرناک رجحان

دانش بابر، پشاور6 جولائی 2016

پاکستان میں بالخصوص خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں خوشی کے مواقع میں ہوائی فائرنگ کرنا ایک قدیم اور قابل فخر روایت سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اکثر اوقات ہوائی فائرنگ کی اندھی گولی کسی کو زخمی یا ہلاک بھی کر دیتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1JJv1
Pakistan Salutschüsse feierliches Gewehrfeuer KPK Provinz
تصویر: DW/D. Babar

خیبر پختونخوا حکومت نے عید کے موقع پر، خصوصاﹰ چاند رات کو ہوائی فائرنگ اور آتش بازی کے روک تھام کے لئے عید سے چند روز پہلے ہی سے مختلف انتظامات کئے تھے، جس میں اشتہارات کے علاوہ پولیس اہکاروں نے مساجد اور حجروں میں جاکر عوام کو اس کے نقصانات اور سزا کے بارے میں آگاہ کیا۔ پشاور ضلعی انتظامیہ کے مطابق اس سال عید کے موقع پر ہوائی فائرنگ میں نمایاں کمی آئی ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق رواں برس پشاور میں عید سے پہلے تک ہوائی فائرنگ کے قریب 160 کیس رجسٹر کئے جاچکے ہیں۔ گزشتہ رات ملک بھر کی طرح پشاور میں بھی ایک بار پھر عوام نے عید کا استقبال ہوائی فائرنگ سے کیا۔ ماضی کے مقابلے میں کم فائرنگ کی وجہ سے اس مرتبہ کوئی ہلاکت نہیں ہوئی تاہم بعض علاقوں سے چند ایک کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔

پشاور کے علاقے تاج آباد کی رہائشی تیرہ سالہ فہیمہ گزشتہ عید الفطر کے موقع پر ہوائی فائرنگ سے زخمی ہو گئی تھی۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے اس کا کہنا ہے کہ اس سال وہ چاند رات کو اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلی، علاقے میں شدید فائرنگ کی وجہ سے اس نے اپنے گھروالوں کو بھی باہر نکلنے سے روکے رکھا، کیوں کہ اسے خوف تھا کہ کہیں اس کے اہل خانہ میں سے کوئی ہوائی گولی کا نشانہ نہ بن جائے۔

فہیمہ اپنے ساتھ گزشتہ برس پیش آنے والے واقعے کو کچھ یوں بیان کرتی ہے۔ ’’پچھلے سال چاند رات کو گرمی کے وجہ سے میں اپنے گھر کے صحن میں بیٹھ کر ہاتھوں پر مہندی لگا رہی تھی، کہ اچانک میرے سر پر کچھ لگا، میں درد کی وجہ سے چیخنے لگی۔‘‘

Pakistan Salutschüsse feierliches Gewehrfeuer KPK Provinz
تیرہ سالہ فہیمہ پچھلے سال عید کے موقع پر ہوائی فائرنگ سے زخمی ہو گئی تھی۔تصویر: DW/D. Babar

فہیمہ بتاتی ہے کہ اس کے سر پر گولی لگی تھی، خون میں لت پت ہسپتال پہنچے پر ڈاکٹر نے ان کا معائنہ کرنے کے بعد مرہم پٹی کر لی۔

فہیمہ کہتی ہے کہ ایک سال گزرنے کے بعد بھی اس کے جسم سے گولی باہر نہیں نکالی گئی۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ گولی فہیمہ کی کھوپڑی میں داخل ہوچکی ہے کہ جس کے لئے ایک بڑے آپریشن کی ضرورت ہوگی لیکن فہیمہ کے والدین اس قابل نہیں ہے کہ اس آپریشن کا خرچ برداشت کرسکیں۔

ایک برس سے اذیت میں مبتلا فہیمہ پوچھتی ہے، ’’لوگ ہوائی فائرنگ کیوں کرتے ہیں؟ جب کہ ان کو پتہ ہوتا ہے کہ بندوق کی گولی کو واپس زمین ہی پر آنا ہے۔‘‘

پولیس انسپکٹر ہمایوں خان کے مطابق عید الفطر کی آمد کے موقع پر ہوائی فائرنگ کی روک تھام کے لیے انہوں نے اپنے علاقے کی مساجد اور حجروں میں ہوائی فائرنگ کے خلاف مہم شروع کر رکھی تھی جس کی وجہ سے گزشتہ سالوں کے مقابلے میں اس بار کم فائرنگ کی گئی تاہم ان کی رائے میں اس رواج کے خاتمے کے لئے مزید وقت درکار ہوگا۔

ہمایوں خان کا مزید کہنا تھا کہ پولیس ڈیپارٹمنٹ نے اس سال ہوائی فائرنگ میں ملوث افراد کے خلاف ایریئل فائرنگ کی دفعات کے مطابق سخت کاروائی کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس میں دوسال سے تین سال قید اور نقد جرمانے کی سزا شامل ہے اور یہ ناقابل ضمانت جرم ہے۔

Pakistan Salutschüsse feierliches Gewehrfeuer KPK Provinz
خیبر پختونخوا میں اس مرتبہ چاند رات پر ہوائی فائرنگ کے واقعات روکنے کے لیے تشہیری مہم شروع کی گئی تھی۔تصویر: DW/D. Babar

پشاور کے ایک اور رہائشی عنایت اللہ کا کہنا تھا کہ لوگ اپنی چند منٹوں کی خوشی کے لئے ہوائی فائرنگ کرتے ہیں، جو کہ پیسوں کے ضیاع کے علاوہ معصوم لوگوں کے اموات کا بھی باعث بن رہا ہے۔ عنایت اللہ کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ حکومت کی جانب سے ہوائی فائرنگ کے خلاف کیے جانے والے اقدامات کہ وجہ سے ان واقعات میں کمی تو ضرور آئی ہے لیکن اس کی رائے میں ہوائی فائرنگ کا مکمل خاتمہ کرنے کے لیے پولیس کو فائرنگ کرنے والوں کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت کاروائی کرنی۔

عنایت اللہ کا مزید کہنا تھا، ’’ہوائی فائرنگ کسی غریب فرد کا کام نہیں ہے، جب کہ اکثر بااثر اور امیر افراد کو افسران بالا کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے، جس کی وجہ سے پولیس ان کو چھوڑ دیتی ہے۔‘‘

پولیس انسپکٹر ہمایوں خان کہتے ہیں کہ اگر عوام حکومت کا ساتھ دیں تو ہوائی فائرنگ کے مسئلے کو مکمل طور پر ختم کیا جاسکتا ہے۔ ان کے بقول اس مرتبہ اعلیٰ افسران کی طرف سے کسی بھی فرد کے ساتھ کسی قسم کی نرمی کی سختی سے ممانعت کی گئی تھی۔