1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں سیاسی اور فوجی قیادت کو درپیش نئے چیلنج

23 دسمبر 2011

پاکستانی بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا ہے کہ فوج کا اقتدار پر قبضے کا کوئی ارادہ نہیں اور ملک میں جمہوری عمل کی حمایت جاری رکھی جائے گی۔

https://p.dw.com/p/13YSm
پاکستانی بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانیتصویر: Abdul Sabooh

جمعے کے روز فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق مہمند اور کرم ایجنسی میں 22 دسمبر کو اگلے مورچوں کے دورے کے موقع پر فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا کہ فوج اپنی آئینی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ ہے۔ انہوں نے سختی کے ساتھ اس تاثر کو مسترد کیا کہ فوج اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ آرمی چیف کے مطابق یہ تاثر گمراہ کن اور اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اعلامیے کے مطابق آرمی چیف نے اس بات پر زور دیا کہ قومی سلامتی کے معاملات کو میرٹ پر پرکھا جانا چاہیے اور قومی سلامتی پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔

Pakistan Ministerpräsident Yousaf Raza Gilani
وزیر اعظم گیلانیتصویر: Abdul Sabooh

فوجی سربراہ کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب صرف ایک روز قبل وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ تمام ادارے پارلیمان کے ماتحت ہیں اور کسی کو ریاست کے اندر ریاست بنانے کی اجازت نہ دی جائے گی۔ حکمران پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے فوجی سربراہ کے اس بیان کا خیر مقدم کیا ہے۔

دوسری جانب جمعے ہی کے روز چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ کسی کو بھی ‘‘ٹیک اوور’’ یا قبضے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

سپریم کورٹ میں متنازعہ میمو کیس کی سماعت کے دوران وزیراعظم گیلانی کے بیان کے حوالے سے اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وہ وقت گزر گیا جب عدالت غیر آئینی اقدامات کی توثیق کیا کرتی تھی۔

Pakistan Präsident Porträt Asif Ali Zardari
صدر آصف علی ذرداریتصویر: AP

ادھر اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (ن) نے بھی چیف جسٹس کے بیان کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ حکومت کے خلاف کسی غیر آئینی اقدام کا حصہ نہیں بنے گی۔ مسلم لیگ ن کے سینیٹر اقبال ظفر جھگڑا نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ہماری جماعت کا موقف بھی یہی رہا ہے کہ ہم نے کسی غیر آئینی، غیر جمہوری اقدام کی حمایت نہیں کرنی اور خدانخواستہ کوئی ایسی بات ہوئی تو ہم آپ کو جمہوری قوتوں کے ساتھ نظر آئیں گے۔‘‘

دوسری جانب پاکستانی فوج نے 24 نومبر کو نیٹو فورسز کی پاکستانی چیک پوسٹ پر حملے سے متعلق امریکہ کی تحقیقاتی رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے تاہم تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ اندرونی خلفشار کی وجہ سے پاکستانی قیادت کے لیے فی الحال بیرونی محاذ پر امریکہ اور نیٹو کے ساتھ تعلقات کی سمت طے کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔

Iftikhar Chaudhry
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدریتصویر: picture-alliance/ dpa

اس حوالے سے جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود نے ڈوئچے ویلے کو بتایا،’’ ہم بیرونی قوتوں کے ساتھ زیادہ قوت کے ساتھ اُس وقت لڑ سکتے ہیں جب ہم اندرونی طور پر مسائل کا شکار نہ ہوں۔ اگر ہم اندرونی طور پر کمزور ہوں گے تو پھر کیسے بیرونی قوتوں کے خلاف لڑ سکیں گے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ اس وقت جن حالات سے ہم گذر رہے ہیں، اندرونی طور پر ہم بہت سے معاملات پر متفق نہیں مثال کے طور پر یہی معاملہ میمو کا دیکھ لیں پوری قوم شامل ہوئی ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو بہت آسانی سے بیٹھ کر اس معاملے کو حل کر سکتے ہیں۔‘‘

دریں اثناء بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی سربراہی میں سینٹرل کمانڈنٹ کانفرنس کا اجلاس فوج کے صدر دفتر یعنی جی ایچ کیو میں جاری ہے جس میں نیٹو حملوں اور ملکی سلامتی کے حوالے سے امور پر غور کیا جا رہا ہے۔

رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد

ادارات: عصمت جبیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں