1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں لاکھوں روہنگیا میانمار کے حالات پر تشویش کا شکار

مقبول ملک روئٹرز
10 ستمبر 2017

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے انتہائی پسماندہ علاقوں اور بستیوں میں رہنے والے قریب تین لاکھ روہنگیا باشندے بھی میارنمار کے حالات پر وہاں مقیم اپنے لاکھوں رشتے داروں اور دوستوں کی وجہ سے گہری تشویش کا شکار ہیں۔

https://p.dw.com/p/2jfhk
تصویر: picture alliance / AA

پاکستان کے جنوبی بندرگاہی شہر اور صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی سے، جو ملک کی اقتصادی شہ رگ ہونے کے علاوہ اس جنوبی ایشیائی ریاست کا سب سے زیادہ آبادی والا شہر بھی ہے، اتوار دس ستمبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی ایک تفصیلی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ پاکستان میں بھی قریب تین لاکھ روہنگیا مسلمان آباد ہیں۔

Pakistan Hyderabad Proteste Myanmar Aung San Suu Kyi
پاکستان کے شہر حیدر آباد میں ایک حالیہ احتجاجی مظاہرے کے دوران میانمار کی نوبل امن انعام یافتہ سیاسی رہنما آنگ سان سوچی کے پوسٹر بھی جلائے گئےتصویر: picture-alliance/Zumapress/J. Laghari

یہ وہ باشندے ہیں، جن میں سے بہت سے قریب نصف صدی قبل سابق برما اور موجودہ میانمار میں ہونے والی خونریزی سے بچتے بچاتے پاکستان پہنچے تھے۔ آج جب کہ میانمار کی ریاست راکھین میں ایک بار پھر بدامنی اور خونریزی جاری ہے، گزشتہ صرف دو ہفتوں کے دوران وہاں نہ صرف سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں بلکہ قریب تین لاکھ روہنگیا اقلیتی مسلمان اپنی جانیں بچانے کے لیے ہمسایہ ملک بنگلہ دیش میں پناہ بھی لے چکے ہیں، جہاں پہلے سے مقیم ایسے روہنگیا مہاجرین کی تعداد بھی چار لاکھ سے زیادہ تھی۔

ان حالات میں پاکستان میں مقیم لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کے لیے میانمار میں ایک بار پھر بدامنی اور قتل و غارت کی خبریں دوہری پریشانی کا باعث بن رہی ہیں۔ راکھین کی تازہ صورت حال نے نہ صرف پاکستان میں ان قریب تین لاکھ روہنگیا باشندوں کی بزرگ نسل کے ماضی کے انتہائی تکلیف دہ تجربات کی یادیں تازہ کر دی ہیں بلکہ یہی روہنگیا اپنے ان لاکھوں رشتے داروں اور دوست احباب کے بارے میں گہری تشویش اور خوف کا شکار بھی ہیں، جو اب تک راکھین ہی میں رہتے تھے۔

Myanmar Rohingya Flüchtling in Jammu, Indien
روہنگیا مہاجرین جنوبی ایشیا کے کئی ممالک میں مقیم ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/AP/C. Anand

روہنگیا باغیوں کی طرف سے جنگ بندی کا اعلان

میانمار: مزید کئی روہنگیا دیہات نذر آتش، پاکستان کا احتجاج

آنگ سان سوچی جمہوریت سے منہ موڑ چکیں، شیریں عبادی

پاکستان میں ان روہنگیا مسلمانوں میں سے کئی اگر یہ کہتے ہیں کہ انہیں خبریں ملی ہیں کہ ان کے رشتے داروں کو راکھین میں قتل کر دیا گیا تو بہت سے دیگر کو اپنے رشتے داروں کے بارے میں کوئی خبر ہی نہیں کیونکہ وہ کوششوں کے باوجود ابھی تک ان سے کوئی رابطہ نہیں  کر سکے۔

پاکستان میں مقیم روہنگیا باشندوں کی اکثریت 60 اور 70 کی دہائیوں میں میانمار میں اپنے آبائی علاقے سے ترک وطن پر مجبور ہونے کے بعد پاکستان پہنچی تھی۔ یہ باشندے کئی عشرے گزر جانے کے بعد بھی میانمار میں بالعموم اور راکھین میں بالخصوص اپنے اہل خانہ کے ساتھ رابطے قائم رکھے ہوئے تھے۔ اب لیکن وہاں نئی خونریزی سے صورت حال کافی بدل گئی ہے اور خوش کن خاندانی رابطوں کی جگہ خوف اور تشویش نے لے لی ہے۔

روئٹرز نے لکھا ہے کہ پاکستان میں روہنگیا باشندوں کی موجودہ بزرگ نسل 1962ء میں میانمار میں فوجی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد اپنے علاقوں میں قتل و غارت سے بچتے ہوئے متحدہ پاکستان میں پہلے اس وقت کے مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش پہنچی تھی اور وہاں سے یہ مہاجرین کراچی منتقل ہو گئے تھے۔

Rohingya-Konflikt in Myanmar
گزشتہ دو ہفتوں کے دوران قریب تین لاکھ روہنگیا مسلمان میانمار سے فرار ہو کر بنگلہ دیش میں پناہ لے چکے ہیںتصویر: picture-alliance/AA/Z. H. Chowdhury

آج یہ روہنگیا پاکستان میں کراچی کے جس علاقے میں رہتے ہیں، وہ ارکان آباد کہلاتا ہے، جو میانمار کی ریاست راکھین کا پرانا نام تھا۔ ان روہنگیا مسلمانوں میں سے اکثر پاکستان ہی میں پیدا ہوئے تھے لیکن ان کی بہت بڑی اکثریت آج بھی پاکستان میں اپنے لیے شہری حقوق سے محروم ہیں۔

راحیلہ صادق نامی ایک روہنگیا خاتون نے، جو قریب 15 برس قبل ایک تارک وطن کے طور پر پاکستان پہنچی تھی، روئٹرز کو بتایا کہ وہ گزشتہ قریب دو ہفتوں سے راکھین میں اپنے رشتے داروں سے ٹیلی فون کے ذریعے رابطے کی مسلسل کوششیں کرتی رہی ہے، لیکن اسے اب تک کامیابی نہیں ملی۔

ترکی روہنگیا مہاجرین کو امداد فراہم کرے گا

سوچی نے خاموشی توڑ دی’’سب جھوٹ کا پلندہ ہے‘‘

اسی طرح کراچی کے رہنے والے 50 سالہ روہنگیا ماہی گیر نور محمد نے بتایا کہ اسے یہ اطلاعات ملی ہیں کہ اس کے خاندان کے تین افراد کو چند روز قبل راکھین میں قتل کر دیا گیا تھا۔ نور محمد نے بتایا، ’’میرا ایک بھائی، ایک برادر نسبتی اور ایک بھتیجا، جو ابھی تک راکھین میں رہتے تھے، ہلاک کر دیے گئے ہیں۔‘‘ اس روہنگیا ماہی گیر نے بتایا کہ اسے اپنے ان تینوں رشتے داروں کی ہلاکت کی اطلاع اس کے ایک اور بھتیجے سے ملی، جو ابھی تک راکھین ہی میں ہے۔

Infografik Geflüchtete Rohingya Muslime ENG
میانمار سے کب کتنے روہنگیا مسلمان مہاجرت پر مجبور ہوئے، اعداد و شمار اوپر نظر آنے والی انفوگرافک میں

کراچی میں یہ لاکھوں روہنگیا ارکان آباد نامی بستی کی تنگ گلیوں میں زیادہ تر بڑے بڑے خاندانوں کی صورت میں لیکن اکثر ایک ایک کمرے والے گھروں میں رہتے ہیں۔

گیارہ دنوں میں سوا لاکھ روہنگیا مہاجرین، بنگلہ دیش میں بحران

ترک صدر کا سوچی کو فون، روہنگیا کے خلاف تشدد کی مذمت

پاکستان میں روہنگیا سالیڈیریٹی آرگنائزیشن کے سربراہ نور حسین کے مطابق، ’’اب تک پاکستانی حکومت نے مقامی روہنگیا برادری سے متعلق کوئی پالیسی اپنائی ہی نہیں۔ جب تک ہماری برادری کے ارکان کو پاکستانی حکومت کے جاری کردہ شناختی کارڈ نہیں ملتے، یہ برادری نہ تو ترقی کر سکتی ہے، نہ ہی پاکستانی معاشرے میں اپنا کردار مزید بہتر بنا سکتی ہے اور نہ ہی اس کے بچوں کو معمول کے سماجی، تعلیمی اور روزگار کے مواقع مل سکتے ہیں۔‘‘

روہنگیا مہاجرین کو بنگلہ دیش میں بھوک اور پیاس کا سامنا