1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان پر حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کے لیے بڑھتا ہوا دباؤ

21 ستمبر 2011

پاکستان اور امریکہ کے درمیان موجودہ سفارتی تعلقات میں کشیدگی کا سب سے نمایاں پہلو پاک افغان سرحد پر امریکی اور اتحادی افواج کے خلاف سرگرم طالبان کا حقانی نیٹ ورک ہے۔

https://p.dw.com/p/12dvh
حقانی نیٹ ورک کے بانی جلال الدین حقانی، فائل فوٹوتصویر: AP

اسی سبب گزشتہ ایک ہفتے کے دوران اعلیٰ پاکستانی اور امریکی حکام کے درمیان ہونیوالی تین الگ الگ ملاقاتوں کا ایجنڈا بھی حقانی نیٹ ورک کے خاتمے کے بارے میں بات چیت تھی۔

امریکہ کے دورے پر گئی ہوئی پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کی اپنی امریکی ہم منصب ہلیری کلنٹن سے ملاقات ہو یا پاکستانی بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ایڈمرل مائیک مولن سے بات چیت، مقصد حقانی نیٹ ورک کے خاتمے کا امریکی مطالبہ ہی تھا۔

امریکی سی آئی اے کے سربراہ ڈیوڈ پیٹریاس کی پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل احمد شجاع پاشا سے منگل کو ہونے والی ملاقات میں بھی حقانی نیٹ ورک کا معاملہ ہی سر فہرست رہا۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق یوں تو امریکہ کئی سالوں سے آئی ایس آئی پر حقانی نیٹ ورک کی حمایت کا الزام لگاتا آیا ہے لیکن 11 ستمبر کو افغان صوبے وردک میں امریکی فوجیوں اور 13 ستمبر کو کابل میں امریکی سفارتخانے اور نیٹو کی تنصیبات پر خونریز حملوں کے بعد امریکہ کا حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی سے متعلق مطالبہ انتہائی زور پکڑ گیا ہے۔

 حقانی نیٹ ورک

پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے صوبہ خیبر پختونخواہ میں سابق سربراہ بریگیڈیر اسد منیر کے مطابق حقانی نیٹ ورک دراصل روس کے خلاف افغان جہاد کے ایک اہم کردار مولوی جلال الدین حقانی سے منسوب ہے، جن کا تعلق افغان پشتون قبیلے زدران سے ہے۔ تاہم جلال الدین حقانی افغان جہاد اور اس کے بعد پاکستان کے قبائلی علاقوں میں  کثرت سے آتے رہے اور پھر انہوں نے شمالی وزیرستان میں اپنے مدارس اور جہادی کیمپ بھی قائم کر لیے۔

Symbol US-Verteidigungsminister zu Besuch im Irak NO FLASH
امریکی سیکرٹری دفاع لیون پنیٹا نے کابل میں حالیہ حملوں کا الزام حقانی نیٹ ورک پر عائد کیا ہے اور پاکستان سے کارروائی کا مطالبہ کیا ہےتصویر: AP

حقانی کا پاکستانی سرحد سے متصل مشرقی افغانستان کے صوبوں پکتیا، پکتیکا، کنڑ، وردک اور غزنی میں بہت اثر و رسوخ ہے۔ تاہم اب ان کی طویل العمری اور خراب صحت کے سبب جلال الدین حقانی کے بیٹے سراج الدین حقانی نے گروپ کی قیادت سنبھال رکھی ہے۔

بریگیڈیر اسد منیر نے کہا، ’’سراج الدین جلال الدین حقانی کا بیٹا ہے۔ چونکہ جلال الدین حقانی کی عمر بہت زیادہ ہو گئی ہے اس لیے سراج الدین اب کمانڈر ہے۔ پاک افغان سرحد پر جتنے بھی گروپ ہیں جیسا کہ القاعدہ، لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ یہ سارے مل کر حقانی کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔‘‘

افغان امور پر گہری نگاہ رکھنے والے پاکستانی صحافی طاہر خان کا کہنا ہے کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال میں پاکستان کا خود کو حقانی نیٹ ورک سے الگ کرنے کا فیصلہ آسان نہیں ہوگا۔ پاکستانی حکومت چاہتی ہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کے بعد وہاں اس کے مفادات کا تحفظ کرنے والا بھی کوئی موجود ہو۔ تاہم طاہر خان کے بقول موجودہ صورتحال نے پاکستان کو ایک دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے۔ ’’پاکستان اب اس وجہ سے پھنس گیا ہے کہ اسے اپنے مفادات کے لیے باامر مجبوری امریکہ کی نظر میں کچھ اقدامات کرنے پڑ رہے ہیں اور اس سلسلے میں دباؤ اتنا بڑھ گیا ہے کہ پاکستان ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کی فوجی اور سویلین قیادت کس طرح خود کو اس مشکل صورتحال سے نکالتی ہے۔‘‘

بریگیڈیر اسد منیر کا کہنا ہے کہ دنیا کی ہر خفیہ ایجنسی اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مختلف طریقے اپناتی ہے اور جس طرح سی آئی اے افغانستان میں امریکی مفادات کا تحفظ چاہتی ہے، اسی طرح آئی ایس آئی بھی اپنے ملکی مفاد کا تحفظ کر رہی ہے تاہم سی آئی اے جس طرح آئی ایس آئی پر حقانی نیٹ ورک سے انتہائی قریبی روابط کا الزام لگاتی آئی ہے شاید اس میں حقیقت کم ہے۔

رپورٹ: شکور رحیم

ادارت: حماد کیانی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں