1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان : چار ہزار مبینہ طالبان مقدمات کے منتظر

27 مئی 2010

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران جہاں ہزاروں دہشت گردمارے گئے، وہاں اب تک چار ہزار کے قریب مشکوک افراد کی گرفتاری بھی عمل میں لائی جاچکی ہے۔

https://p.dw.com/p/NYiK
تصویر: AP

ان گرفتار افراد میں عسکریت پسندوں کے کئی اہم کمانڈر بھی شامل ہیں۔ یہ لوگ صوبے کی مختلف جیلوں یا پھر بعض سیکیورٹی اداروں کی تحویل میں ہیں، تاہم حکومت ابھی تک ان افراد کوعدالتوں کے سامنے پیش کرنے میں ناکام رہی ہے۔ پشاورہائیکورٹ نے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں کے لئے تین ماہ قبل چار ججز کی تقرری کا اعلان کیاتھا، تاہم صوبائی حکومت جہاں انہیں تاحال مطلوبہ سہولیات فراہم نہ کرسکی، وہاں دیگرعملے کی تقرری اورعدالتوں کے قیام کے لئے عمارتوں کاتعین بھی نہیں ہو پایا ہے۔

Anschlag auf das pakistanische Cricketteam
ہزاروں افراد پولیس اور سیکیورٹی فورسز کی حراست میں ہیںتصویر: AP

دہشت گردی میں مبینہ طورپر ملوث گرفتار افراد میں سے پانچ سو کے قریب کو سینٹرل جیل پشاور میں رکھاگیا ہے۔ مؤثر ثبوتوں اورشہادتوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے بعض عسکریت پسنداوران کے ساتھی اعلیٰ عدالتوں سے ضمانت پررہا ہوئے ہیں۔ پشاورہائیکورٹ بار کونسل کے سابق صدر اور معروف قانون دان لطیف آفریدی کاکہنا ہے : ”حالات کاتقاضا ہے کہ حکومت جلد از جلد ایسے انتظامات کرے کہ ان لوگوں پر مقدمات چلائے جاسکیں۔ ورنہ اتنی بڑی تعدادمیں ایسے لوگوں کو حراست میں رکھنا مشکل ہوجائے گا کیونکہ آئین کا تقاضا ہے کہ گرفتاری کے 24 گھنٹے کے اندر انہیں عدالت میں پیش کرنا ہوتا ہے۔ یہ ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ اسی طرح جو کوئی گرفتار کیاجائے، اسے عدالت کے حکم کے بغیر کہیں اورنہیں رکھا جاسکتا۔ اگرکسی کے پاس کوئی شہادت یا ثبوت ہے تو حکومت کو ہنگامی حالات میں دہشت گردی کے وارداتوں میں ملوث افرادکے لئے خصوصی عدالتیں قائم کرناچاہئیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ بعض لوگوں کانکتہ نظر درست ہے کہ جن لوگوں نے سینکڑوں افراد کے انسانی حقوق کو پامال کیا، انہیں کوئی حق نہیں کہ ان کے ساتھ انسانی سلوک کیاجائے۔ ان لوگوں ( طالبان) نے لوگوں کی زندگی ختم کی۔ ان کی عزت پرہاتھ ڈال دیا انہوں نے لوگوں کے گھرتباہ کئے بغیر کسی آئین، قانون اور اخلاقی جواز کے انسانوں کی زندگی برباد کی ہے۔ ’’عوام کاغصہ اورغضب ان طالبان کے خلاف ہے لیکن آئین کاتقاضا ہے کہ ان لوگوں کیلئے خصوصی عدالتیں بنائی جائے اوران پر مقدمات چلائے جائیں۔“

BIldergalerie Flüchtlingskrise im Swattal Pakistanische Soldaten
پاکستانی فوج نے گزشتہ برس سوات آپریشن مکمل کیا تھاتصویر: picture-alliance/ dpa

قانونی ماہرین کا کہنا ہےکہ اگراعلیٰ عدالتوں نے آئین کے سیکشن 199کے تحت مشکوک افرادکی ضمانت پررہائی کاسلسلہ اسی طرح جاری رکھا، تو اینٹی ٹیررازم آرڈنینس 2009ءکے غیر موثر ہونے کاخدشہ پیدا ہوجائے گا۔ یہ آرڈیننس یکم اکتوبر 2009ءکو مخصوص حالات کے پیش نظر دہشت گردوں کاعدالتوں سے ضمانت پر رہائی کاعمل روکنے کے لئے جاری کیاگیا تھا۔

صوبائی حکومت نے مالاکنڈ ڈویژن میں آپریشن شروع کرانے سے قبل عوام سے فوری اورسستے انصاف کی فراہمی کا وعدہ کیا تھا۔ آپریشن ختم ہوئے ایک سال سے زائد عرصہ بیت گیا ہے لیکن حکومت اپنے وعدے پرعملدآمد نہیں کرسکی ہے۔ گرفتار افراد میں ابھی تک درجن سے زیادہ ثبوتوں کی عدم دستیابی اور کمزور حکومتی دلائل کی وجہ سے آئین کے آرٹیکل 199کے تحت ضمانت پررہائی حاصل کرچکے ہیں۔

ادھر سوات میڈیا سینٹر کے ترجمان کرنل اختر عباس کے مطابق: ”مالاکنڈ ڈویژن میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے دوران ساڑھے تین ہزار دہشت گرد ہلاک کئے گئے۔صرف لوئر سوات میں ہلاک شدگان کی تعداد 2008 سے زیادہ ہے۔‘‘

رپورٹ : فرید اللہ خان، پشاور

ادارت : عاطف توقیر