1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کا افغانستان سے مولوی فضل اللہ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ

17 اکتوبر 2011

پاکستانی فوج نے کہا کہ افغان اور بین الاقوامی فورسز نے افغانستان سے ہونے والے سرحد پار حملوں میں ملوث مولوی فضل اللہ کے خلاف ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی حالانکہ اسلام آباد اس سلسلے میں بارہا درخواست کر چکا ہے۔

https://p.dw.com/p/12tMm
تصویر: AP

پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے گفتگو میں کہا کہ یہ مسئلہ ابھی تک جوں کا توں موجود ہے۔ انہوں نے کہا، ’’حالیہ مہینوں میں مولوی فضل اللہ کے وفادار عسکریت پسندوں کے حملوں میں پاکستانی سکیورٹی فورسز کے 100 کے قریب اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔‘‘

ملا فضل اللہ وادی سوات میں پاکستانی طالبان کا رہنما تھا اور سن 2009ء میں پاکستانی فوجی کی کارروائی کے بعد وہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا۔

جنرل اطہر عباس نے کہا کہ ملا فضل اللہ کو اپنی آتشیں ریڈیو تقریروں کی وجہ سے ایف ایم ملا یا ریڈیو ملا بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ملا فضل اللہ نے افغانستان میں دوبارہ منظم ہو کر وہاں اپنے مضبوط گڑھ قائم کر لیے ہیں اور پاکستان کے لیے ایک بار پھر خطرہ بن گیا ہے۔ عباس نے کہا، ’’فضل اللہ اور اس کے ساتھی افغانستان کے صوبوں کنڑ اور نورستان میں موجود ہیں۔‘‘

Athar Abbas Sprecher der pakistanischen Armee
پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے الزام لگایا ہے کہ ملا فضل اللہ افغانستان میں مقیم ہے اور وہاں سے پاکستانی علاقوں پر حملوں میں ملوث ہےتصویر: AP

ادھر کابل میں نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی کے ترجمان لطف اللہ مشعل نے کہا، ’’دہشت گرد گروپ سرحد کی دوسری جانب سے آ کر یہاں حملے کر رہے ہیں۔ میں ایک چیز یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ افغانستان میں کوئی بھی گروپ دوبارہ منظم نہیں ہو رہا اور نہ ہی یہاں مقیم ہے۔‘‘

حالیہ مہینوں میں کابل اور اسلام آباد کے درمیان تعلقات کافی کشیدہ ہو چکے ہیں۔ سب سے پہلے تو افغانستان نے شکایت کی کہ عسکریت پسندوں کے حملوں کے جواب میں پاکستانی فوج افغانستان کے سرحدی علاقوں پر گولہ باری کر رہی ہے۔

اس کے بعد افغان حکام نے الزام لگایا کہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کرنے والے سابق صدر برہان الدین ربانی کے قتل میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی ملوث ہے۔ پاکستان نے ان الزامات سے انکار کیا ہے۔

پاک انسٹیٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا کا اس حوالے سے کہنا ہے، ’’اس نئے عنصر سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں کشیدگی میں اضافہ ہو گا۔ یہ معاملہ سیاسی رنگ اختیار کر چکا ہے اور دونوں فریق ایک دوسرے پر الزامات لگا رہے ہیں۔‘‘

Burhanuddin Rabbani Afghanistan getötet
افغان حکام سابق افغان صدر اور امن مندوب برہان الدین ربانی کے قتل کا الزام پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی پر لگاتے ہیںتصویر: DW

اطہر عباس نے کہا کہ فضل اللہ اور اس کا گروپ دِیر کے راستے ایک بار پھر سوات میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ پاکستان اس علاقے میں موجود عسکریت پسندوں کو افغانستان اور بھارت میں پراکسی جنگیں لڑنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ پاکستان کی طرف سے اس کی تردید کی جاتی ہے۔

پاکستانی حکام نے امریکہ سے کہا ہے کہ وہ اپنی ناکامیوں کے لیے اسلام آباد کو مؤرد الزام ٹھہرانے کی بجائے افغانستان میں اپنے دشمنوں کے خاتمے پر توجہ مرکوز کرے۔

رپورٹ: حماد کیانی/خبر رساں ادارے

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں