1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کی سعودی فوجی اتحاد میں شمولیت لیکن خاموشی کے ساتھ

شکور رحیم، اسلام آباد15 دسمبر 2015

پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف سعودی عرب کی سر براہی میں چونتیس اسلامی ممالک پر مشتمل فوجی اتحاد میں شمولیت کی خبروں سے متعلق فی الحال سرکاری سطح پر خاموشی اختیار کی ہے، جو معنی خیز ہے۔

https://p.dw.com/p/1HNnn
Saudi-Arabien F-15 Kampfflugzeuge
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine

سعودی خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کے مطابق سعودی قیادت میں بننے والے نئے فوجی اتحاد میں خلیجی ممالک کے علاوہ مصر، ترکی ،پاکستان ،ملائشیاء اور افریقی ممالک شامل ہوں گے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس اتحاد میں شمولیت کی خبر پر حکومت پاکستان نے فوری طور پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا اور یہ خاموشی معنی خیز ہے۔

دفاعی تجزیہ کار ماریہ سلطان کا کہنا ہے کہ ہمیں دیکھنا ہو گا کہ یہ فوجی اتحاد دہشت گردی کے خلاف کس طرح سے کارروائی کا ارادہ رکھتا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’میرے خیال میں تو یہ کسی فوجی کارروائی سے زیادہ دہشت گردی کے مسائل پر یکساں موقف اپنانے کے حوالے سے ایک اتحاد ہو گا تاکہ اسلامی ممالک ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہونے کا پیغام دے سکیں۔‘‘

ماریہ سلطان کا کہنا تھا کہ اگر اس میں کسی طرح براہ راست فوجی تعاون بھی شامل ہے تو پھر اس کی نوعیت بھی دیکھنی ہو گی۔ خیال رہے کہ پاکستانی بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے گزشتہ ماہ سعودی عرب کا دو روزہ سرکاری دورہ کیا تھا۔ اس دورے کے دوران انہوں نے اعلیٰ سعودی قیادت کے ساتھ ملاقاتیں کیں تھیں۔ انہوں نے سلطنت کے ولی عہد اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان سے بھی ملاقات کی تھی۔ تاہم اس موقع پر ایسے کسی اتحاد کی تشکیل سے متعلق بات چیت کے بارے میں کوئی خبر سامنے نہیں آئی تھی۔

دفاعی تجزیہ کار لفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) طلعت مسعود کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے سعودی عرب کافی عرصے سے دیگر اسلامی ممالک کا کھلا تعاون چاہ رہا تھا اور یہ اتحاد اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’میرے خیال میں یہ ایک نظریاتی قسم کا اتحاد تشکیل دیا گیا ہے۔ اس کا مقصد بظاہر اتحاد کے رکن ممالک کے درمیان خفیہ معلومات کا تبادلہ، بین الاقوامی سطح پر مختلف فورمز میں دہشت گردی کے امور سے متعلق یکساں موقف اپنانا ہو گا اور اس میں میرے خیال میں ایک دوسرے کی مدد کے لئے براہ راست فوج بھجوانے جیسا کچہ شامل نہیں۔‘‘

اس اتحاد میں پاکستان خطے کے ایک اہم مسلمان ملک ایران کو شامل نہ کیے جانے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں طلعت مسعود نے کہاکہ سعودی عرب کو ایران پر اعتماد نہیں۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ایران اور سعودی عرب اس خطے کے ہر معاملے پر ایک دوسرے سے مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں اور دونوں کھل کر اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔‘‘

خیال رہے کہ یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف کارروائی کے لئے سعودی عرب نے پاکستان سے فوجی امداد طلب کی تھی، جس پر اندرون ملک شدید ردعمل کے بعد حکومت نے معاملہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیشں کیا۔ پارلیمنٹ نے اپریل میں مشترکہ قرارداد کے ذریعے یمن میں فوج بھجوانے کی مخالفت کر دی تھی۔ اس کے بعد بظاہر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں سرد مہری دیکھی گئی تھی۔ اس وقت یو اے ای کے وزیر خارجہ نے اپنے ایک بیان میں پاکستان کو اس انکار کے سخت نتائج بھگتنے کی دھمکی بھی دی تھی۔