1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر یاقوت کے خزانے سے مالا مال

صائمہ حیدر
15 اکتوبر 2017

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر  میں کیے گئے ایک جیولوجیکل سروے کے مطابق یہ علاقہ قیمتی پتھر یاقوت کے خزانے سے مالامال ہے۔ اس خطے کی مٹی میں ایک اندازے کے مطابق نصف بلین ڈالر کے یاقوت چھپے ہوئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2lrKT
Kaschmir - Rohstoffabbau in Rubienenmiene
تصویر: Getty Images/AFP/S. Qayyum

قیمتی پتھروں کے ماہرین اور کاروباری افراد کا کہنا ہے کہ اس بیش قیمت خزانے کو نکالنے میں فرسودہ آلات و اوزار اور مطلوبہ تکنیک اور بنیادی ڈھانچے میں سرمائے کی کمی بڑی رکاوٹیں ہیں۔ یہی وہ اسباب ہیں جو اس علاقے کو قیمتی پتھروں کی صنعت میں اہم کردار ادا کرنے سے روکے ہوئے ہیں۔

جیم اسٹون کی ایک ڈیلر خاتون ہما رضوی نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا،’’ ہمارے پاس یہاں یاقوت کا پتھر ہے جو اُتنا ہی اچھا ہے جتنا ایک برمی یاقوت۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ یاقوت کو کان میں سے نکالنے کے لیے زیادہ ترقی یافتہ اور حساس تکنیک درکار ہوتی ہے۔‘‘

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں محض ایک کان اور تلاش کا ایک ہی مقام ہے جہاں کان کن کھدائی کر کے قیمتی پتھروں کے پائے جانے کے امکان کا جائزہ لیتے ہیں۔ علاقے کی انتظامیہ کی جانب سے کیے گئے جیولوجیکل سروے کے مطابق البتہ اس تمام علاقے میں چالیس ملین گرام قیمتی یاقوت کے مصدقہ اور اندازوں کے مطابق پچاس ملین گرام کے ذخائر موجود ہیں۔

Kaschmir - Rohstoffabbau in Rubienenmiene
تصویر: Getty Images/AFP/S. Qayyum

کان کن محمد عظیم  ہمالیہ کی ڈھلان پر واقع چِٹا کھٹا کی یاقوت کی کان میں سال میں چار مہینے صرف کرتے ہیں۔ یہان تک پہنچنے کے لیے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر مظفر آباد سے گیارہ گھنٹے گاڑی پر سفر کے بعد دو گھنٹے پیدل کا راستہ طے کرنا پڑتا ہے۔ محمد عظیم نے اے ایف پی کو بتایا،’’ میں بہت کم ہوا والی ٹنل میں دھماکہ خیز مواد کے رکھے جانے سے پہلے زمین میں پرانی طرز کی سوراخ کرنے والی مشین سے ڈرل کرتا ہوں۔ یہ بہت مشکل کام ہے۔‘‘

یہ کان کنی کمر توڑ دینا والا کام ہے اگرچہ اس کا پھل شاذونادر ہی ملتا ہے۔ گزشتہ سال کان کنی کرنے والے افراد  میں سے ایک کو یہاں سے انڈے کی جسامت کے برابر ایک یاقوت ملا تھا۔

Kaschmir - Rohstoffabbau in Rubienenmiene
تصویر: Getty Images/AFP/S. Qayyum

ماہرین کو یقین ہے کہ جیم اسٹون کی صنعت میں سرمایہ کاری سے اس علاقے کے چار ملین رہائشیوں کے معاشی حالات کو بڑی حد تک تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ آزاد کشمیر مائین اینڈ انڈسٹری ڈیویلیپمنٹ کے سربراہ شاہد ایوب کا کہنا ہے کہ اس متنازعہ علاقے کے انتظامی امور دیکھنے والے وفاقی اداروں کے پاس نئی کانوں کی تعمیر اور جدید مشینری کی خریداری کے لیے فنڈز کی کمی ہے۔

 

 پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں قیمتی پتھروں کا کاروبار کرنے والے میر خالد کے مطابق ،’’ یہ آپ کی قسمت پر منحصر ہے۔ پتھر کو کاٹتے ہوئے یا تو آپ کے ہاتھ ایک خوبصورت یاقوت آئے گا یا پھر چٹخا ہوا بے قیمت پتھر۔‘‘

پاکستان میں جیم اسٹون کی صنعت کو پروان چڑھنے میں ابھی وقت درکار ہے۔ اسمگلنگ کے خدشے کے پیش نظر خام قیمتی پتھروں کی علاقے میں نقل وحرکت پر پابندی بھی یہاں اس انڈسٹری کو پھلنے پھولنے سے روکنے میں رکاوٹ کا سبب ہے