1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک افغان تجارتی راہداری پر تنازعہ

امتیاز گل، اسلام آباد8 مئی 2009

پاکستان میں بعض ماہرین پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پر امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کے اس بیان کو بھی خاصا معنی خیز قرار دے رہے جس میں انہوں نے اس معاہدے کو 43 سالہ کاوشوں کا نتیجہ قرار دیا۔

https://p.dw.com/p/HmP1
بھارت گزشتہ سات برسوں سے واہگہ سے براستہ پاکستان افغانستان تک آمد و رفت کی اجازت کے لئے کوشاں ہےتصویر: AP

پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی راہداری کے معاہدے پر نظر ثانی سے متعلق مفاہمتی یادداشت پر واشنگٹن میں کئے گئے دستخطوں اور اس کے نتیجے میں مبینہ طور پر بھارت کے مستفید ہونے ایسی خبروں نے مذکورہ معاہدے کے عمل میں آنے سے قبل ہی اس پر شکوک و شبہات کی چادر تان دی ہے۔

پاکستان میں بعض ماہرین پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پر امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کے اس بیان کو بھی خاصا معنی خیز قرار دے رہے جس میں انہوں نے اس معاہدے کو 43 سالہ کاوشوں کا نتیجہ قرار دیا۔ ان ماہرین کے مطابق یہ ممکنہ معاہدہ تکنیکی طور پر بھارت کو واہگہ بارڈر سے خیبر پاس کے ذریعے افغانستان اور پھر وسطی ایشیاء تک اپنی اشیاء کی ترسیل کی سہولت پہنچائے گا۔

Konflikt Indien Pakistan
معاہدہ عمل میں آنے سے پہلے ہی تنازعے کی شکل اختیار کر گیا ہے

تجزیہ نگار ڈاکٹر فرخ سلیم کے مطابق ٹرانزٹ ٹریڈ سے اسمگلنگ کے رجحان کو بھی تقویت ملے گی جس کا براہ راست نقصان پاکستانی صنعت کو پہنچ سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جو سامان اب سستے داموں مہیا کرتا ہے اگر وہ افغانستان کی طرف جا رہا ہے اور جو حضرات اس میں فراڈ کا عنصر داخل کرنا چاہیں گے وہ وہاں سے سستی چیزیں منگوائیں گے اور پاکستان میں لیک کروا لیں گے اور لوکل مارکیٹ میں بیچ ڈالیں گے جس سے مقامی صنعتکار کو نقصان پہنچے گا۔

دوسری طرف تجارتی راہداری کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ایسی تجارت کرنے والے ممالک ہمیشہ فائدے میں رہتے ہیں۔ آریانہ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے پروفیسر خادم حسین کے مطابق ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کے ذریعے بھارت کو افغانستان تک رسائی ملنے کے نتیجے میں پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے ذریعے خطے میں امن و استحکام کو بھی فروغ مل سکتا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ جو بھی پاکستان کی تیار کردہ مصنوعات ہیں ان کہ ہندوستان کی مارکیٹوں میں رعایت یا ٹیرف معاف کروا کے ان کی جگہ پیدا ہونا چاہئے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ایسی چیزیں ہیں جن پر رعایت لی جا سکتی ہے اور ان کے خیال میں ہندوستان سے اس تاریخی حساسیت سے اب پاکستان کو نکلنا چاہئے۔

خیال رہے کہ بھارت گزشتہ سات برسوں سے واہگہ سے براستہ پاکستان افغانستان تک آمد و رفت کی اجازت کے لئے کوشاں ہے تاہم بالخصوص پاکستانی عسکری اداروں کے تحفظات کے باعث یہ معاملہ کھٹائی میں پڑا ہوا ہے اور شاید اس حوالے سے ابتدائی بات چیت بھی امریکی رہنمائوں کی موجودگی میں اسی لئے ہوئی تاکہ اس معاملے پر پاکستانی تحفظات کو دور کیا جا سکے۔