1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک افغان سرحد کھل گئی، تجارتی سرگرمیاں بدستور معطل

فریداللہ خان، پشاور
7 مارچ 2017

پاکستان اور افغانستان کے مابین طور خم اور چمن کی سرحدی گزر گاہیں پیدل آمد و رفت کے لیے عارضی طور پر کھول دی گئی ہیں۔ اٹھارہ روز بعد سرحد کھلنے کے باوجود دونوں ممالک کے مابین تجارتی سرگرمیاں بدستور معطل ہیں۔

https://p.dw.com/p/2YloH
Pakistan und Afghanistan Grenzöffnung bei Torkham
تصویر: DW/F. Khan

سرحدی گزرگاہوں پر سخت سکیورٹی اقدمات اٹھائے گئے ہیں۔ سرحد پار کرنے والوں کی دستاویزات کی سخت چیکنگ کے بعد انہیں سرحد عبور کرنے جانے کی اجازت دی جا رہی ہے۔

طورخم  میں قبائلی رہنما شیر خان آفرید ی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’سرحد کی دونوں جانب ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع ہیں۔ ان میں مردوں کے ساتھ ساتھ بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔‘‘

 ان کا مزید کہنا تھا، ’’سرحد صبح سات بجے سے شام سات بجے تک کھلی رہے گی۔ اس دوران ان ہزاروں افراد میں سے صرف تین سو کے قریب لوگ سرحد عبور کر سکیں گے کیونکہ دونوں جانب سرحد عبور کرنے والوں کی کڑی جانچ پڑتال کی جا رہی ہے۔ ایسے میں ایک فرد کے کاغذات چیک کرنے پر کافی وقت لگتا ہے۔‘‘

Pakistan und Afghanistan Grenzöffnung bei Torkham
تصویر: DW/F. Khan

 ان کا کہنا تھا کہ دونوں جانب ہزاروں کی تعداد میں سامان سے بھرے ٹرک کھڑے ہیں، جن میں پھل،سبزیاں اور گوشت وغیرہ ہیں، ’’یہ اشیاء خراب ہونے سے تاجر پریشان ہیں تاہم انتظامیہ کا کہنا ہے کہ فی الحال انسانی ہمدردی کی بیناد پر پیدل جانے والوں کو اجازت دی گئی ہے۔‘‘

پاکستان میں تعینات افغان سفیر عمر زاخیل وال کے مطابق سرحد بند ہونے کی وجہ سے پاکستان میں پچیس ہزار سے زیادہ افغان باشندے پھنس کر رہ گئے ہیں۔ قبل ازیں ان کا کہنا تھا کہ وہ افغان حکومت کو ان لوگوں کو فضائی راستے سے اپنے ملک لے جانے کا مشورہ دینے پر غور کر رہے ہیں۔

پاک افغان سرحد صرف دو دن کے لئے کھولی گئی ہے لیکن افغانستان جانے والوں کی تعداد میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں کئی لوگ سرحد کے قریب پاکستانی حدود میں قائم مساجد اور مقامی لوگوں کے حجروں میں قیام پر مجبور ہیں۔

Pakistan und Afghanistan Grenzöffnung bei Torkham
تصویر: DW/F. Khan

دوسری جانب دونوں ممالک کے مابین طور خم اور چمن سے روزانہ دو ہزار سے زیادہ مال بردار گاڑیاں گزرتی ہیں۔ اٹھارہ روز کی بندش کی وجہ سے دونوں جانب ہزاروں کی تعداد میں ٹرک کھڑے ہیں۔ ان ٹرکوں میں نیٹو کے لئے سامان، ایکسپورٹ امپورٹ اور افغان ٹرانزٹ کے ٹرک شامل ہیں۔کسٹم کے ایک اہلکارنے نام نہ بتانے کی شرط پر ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’اس بندش کی وجہ سے سرکاری خزانے کو ٹیکس کی مد میں روزانہ ڈھائی کروڑ سے تین کروڑ روپے تک کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے جبکہ دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی بھی بڑھ رہی ہے۔ اسی طرح اس تجارت سے وابستہ ہزاروں افراد کا روزگار بھی تباہ ہو رہا ہے۔‘‘

سرحد پر تعینات پولیٹیکل حکام کا کہنا ہے کہ طورخم سرحد کو مکمل طور پر کھلنے کا ابھی امکان نظر نہیں آتا تاہم وہ حکومت کی جانب سے ملنے والی ہدایات پر عمل درآمد کرنے کے پابند ہیں اور ملک کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے ہر ممکن اقدام اٹھائیں گے۔

پاکستان نے افغانستان کے ساتھ ملحق سرحد کو اٹھارہ روز قبل اس وقت بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا، جب ملک کے تمام صوبوں میں ہونے والے دہشت گردی کے پے در پے واقعات میں ایک سو سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی تھیں۔

Pakistan Afghanistan Grenze Torkhum Peshawar
تصویر: DW/D.Baber

 تحقیقات کے بعد ان دھماکوں کے تانے بانے افغانستان میں روپوش عسکری تنظیموں سے جوڑے گئے تھے اور افغان حکومت سے ان کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔ تاہم افغان حکومت کی جانب سے کارروائی میں ناکامی پر پاکستان نے حفاظتی اقدامات کے طور پر پاک افغان سرحد بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا، جس کے باعث دونوں جانب ہزاروں افراد پھنس کر رہ گئے تھے۔ انسانی ہمدردی کی بیناد پر پاکستان نے منگل کے روز طورخم اور چمن بارڈر دو دن کے لیے کھولنے کا اعلان کیا تھا۔