1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک امریکہ تعلقات، تناؤ بدستور موجود

9 اکتوبر 2010

پاکستان میں طالبان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے حوالےسے امریکی حکومت کی تشویش میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہےکہ یہ صورتحال دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دونوں ممالک کے اتحاد میں تناؤکا باعث بن رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/PZtZ
تصویر: AP

دہشت گردی کے خلاف پاکستانی اداروں کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات کو امریکی حکام کی جانب سے اکثر سراہا بھی جاتا رہا ہے اور متعدد مرتبہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پاکستان اس سلسلے میں پوری طرح سے اپنا کردار نہیں نبھا رہا۔ ساتھ ہی پاکستان پر یہ بھی الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کی کمین گاہیں ختم نہیں کر پا رہا۔ کچھ امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ سرحد پار سے دہشت گردی افغانستان کی جنگ پر بری طرح اثر انداز ہو رہی ہے۔ ستمبر کے مہینے کے دوران پاکستان کے قبائلی علاقوں پر ریکارڈ ڈرون حملے ہوئے۔ اس کے علاوہ نیٹو افواج نے بھی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی۔ نیٹو کے حملوں میں پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد اسلام آباد حکام نے احتجاجاً نیٹو کا پاکستان سے سپلائی روٹ بند کردیا۔ سرحد بند ہوئی، تو نیٹو کے لئے سامان رسد سے لدے ٹرک بھی رک گئے۔ اس صورتحال کا دہشت گردوں نے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹرکوں کے ان قافلوں پر حملے کرنا شروع کر دئے۔

Pakistan Rebellen fackeln schon wieder Nato-Laster 04.10.2010
پاکستان نے فضائی حدود کی خلاف ورزی پر نیٹو سپلائی کی بندش کا اعلان کیا تھاتصویر: AP

اس صورتحال میں واشنگٹن حکام کو شبہ ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے کچھ عناصر عسکریت پسندوں سے ملے ہوئے ہیں۔ پینٹاگون کے ترجمان کرنل ڈیوڈ لیپن کا کہنا ہے کہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ آئی ایس آئی کے یہ عناصر دہشت گردوں کو پکڑنے کے بجائے ان کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔

اسی ہفتے وائٹ ہاؤس کی جانب سے کانگریس کو افغانستان کی جنگ کے حوالے سے جو رپورٹ بھیجی گئی ہے، اس میں تحریر ہے کہ پاکستانی فوج نےگزشتہ دنوں طالبان اور القاعدہ کے خلاف براہ راست کارروائی کرنے سے اجتناب کیا ہے۔

تاہم اصل بات یہ ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے مفادات ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ نجی خفیہ ایجنسی سٹریٹفورکے مطابق پاکستان افغانستان پر ویسا ہی اثر و رسوخ چاہتا ہے، جیسا کہ طالبان کے دور میں تھا۔ اس وجہ سے پاکستان اپنی سرزمین پر انہیں پناہ دئے ہوئے ہے۔ دوسری جانب امریکہ ان عسکریت پسندوں اور ان کے ٹھکانوں کو ختم کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ افغانستان سے واپس جا سکے۔ افغانستان کے لئے سابق امریکی جنرل سٹینلے میک کرسٹل کے مشیر اینڈریو ایکسم نے کہا: ’’ یہ بات بالکل واضح ہے کہ پاکستان امریکہ سے مایوس ہے لیکن مجھے یہ نہیں معلوم کہ کیا یہ بات پاکستان کو پتا ہے کہ امریکی حکومت اور عوام اس سے کتنے ناامید ہیں۔‘‘

Pakistan Rebellen fackeln schon wieder Nato-Laster 04.10.2010
گزشتہ چند دنوں میں نیٹو ٹرکوں پر پے دے پے حملے ہوئے ہیںتصویر: AP

اس سال پاکستانی اور امریکی حکام کے مابین دفاعی امور پر بات چیت کا ایک مرحلہ ہوا تھا۔ اس میں پاکستان کو مختلف ترقیاتی منصوبوں کے لئے 500 ملین ڈالر دینے کی بات ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ امریکہ نے حالیہ سیلاب کے دوران فوری امداد اور فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ اپنے اتحادی کا کس قدر خیال کرتا ہے۔ تاہم ان تمام چیزوں کے باوجود پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات اس وقت اپنے کمزور ترین دور سے گزر رہے ہیں۔ ساتھ ہی واشنگٹن حکام کی جانب سے کانگریس کی پیش کی جانے والی حالیہ رپورٹ پاکستان کے لئے بہت نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ کانگریس پاکستان کی اگلے پانچ سالوں تک دی جانے والی امداد پر سوال اٹھا سکتی ہے۔

رپورٹ: عدنان اسحاق

ادارت: عاطف توقیر

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں