1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پبلک سروسز میں غیر ملکیوں کے لئے کوٹہ : مسلمانوں کی مرکزی مشاورتی کونسل کا مطالبہ

4 نومبر 2010

گزشتہ روز جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے دفتر میں منعقد ہونے والی تارکین وطن کے انضمام سے متعلق چوتھی کانفرنس کے بعد جرمنی میں متعدد سیاسی شخصیات اور یہاں آباد غیر ملکیوں کی تنظیموں کے نمائندوں کی طرف سے کڑی تنقید کی جا رہی

https://p.dw.com/p/Py8R
تصویر: AP

چانسلر میرکل کے اس بیان کے باوجود کہ اس اجلاس سے وابستہ توقعات پوری ہوئی ہیں، ناقدین کا کہنا ہے کہ کانفرنس کے نتائج غیر واضح ہیں۔ برلن میں چانسلر دفتر میں منعقد ہونے والا تارکین وطن کے انضمام سے متعلق اجلاس اپنی نوعیت کا چوتھا اجلاس تھا، جس میں صوبائی اور وفاقی وزراء، جرمنی کے دونوں بڑے کلیساؤں، یعنی کیتھولک اور پروٹسٹنٹ چرچ کے نمائندوں سمیت غیر ملکیوں، خاص طور سے مسلمانوں کی مختلف تنظیموں کے نمائندوں نے چانسلر کے ساتھ بات چیت کی۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی اس اجلاس سے مختلف توقعات وابستہ کی گئی تھیں۔ میرکل کے مطابق وہ سب پوری ہوئی ہیں۔ میرکل کا اس بارے میں کہنا تھا ’ہم اب پانچویں اجلاس کے ٹھوس نتائج کے لئے تیاریاں کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اپنے اقدامات کو مزید واضح اور ان کے لئے ایک وقت کا تعین کریں گے۔ ہم ایک ایکشن پلان کی مدد سے اپنے اقدامات کا جائزہ لیں گے اور دیکھیں گے کہ ہم نے کیا کچھ حاصل کیا اور ہم کون سے اہداف پورے کرنے میں ناکام رہے۔‘

Flash-Galerie NRW Wahl
جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کی وزیر اعلیٰ ہانے لورےتصویر: AP

انگیلا میرکل کے برعکس جرمنی کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا، جہاں دیگر صوبوں کے مقابلے میں غیر ملکیوں کی مجموعی تعداد بھی سب سے زیادہ ہے، کی وزیر اعلیٰ ہانےلورے کرافٹ نے وفاقی حکومت کے تارکین وطن کے انضمام سے متعلق اجلاس کو ایک لاحاصل پیش قدمی قرار دیا ہے۔ گزشتہ روز ایسی چوتھی کانفرنس کے اختتام پر انہوں نے ایک بیان میں کہا، ’مجھے تارکین وطن کے انضمام کے عنوان سے ہونے والی کانفرنس کے اس سلسلے کا کوئی مقصد نظر نہیں آتا۔ گزشتہ روز کے اجلاس سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوا۔‘

جرمن حکومت کو انضمام کی پالیسی سے متعلق کوئی ٹھوس فیصلے کرنا چاہئیں۔ نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کی وزیر اعلیٰ نے کہا کہ وہ اپنے صوبے میں پبلک سروسز سے متعلقہ شعبوں میں تربیت یافتہ اور قابل غیر ملکیوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے پر خاص توجہ دیں گی۔ ان کے بقول ملازمتوں کے لئے درخواست دہندگان کی درخواستیں گمنام ہوا کریں گی تاکہ امتیازی برتاؤ کی کوئی گنجائش ہی نہ ہو۔

NO FLASH Ausländer Arbeitskraft Deutschland
جرمنی کو ہر شعبے میں غیر ملکی کارکنوں کی ضرورت ہےتصویر: picture-alliance/Sven Simon

اُدھر جرمنی کی ترک اسلامی یونین DITIB کے بین المذاہبی مکالمت کے نگراں باقر البوگا نے کہا ہے کہ انہیں اس بات کی خوشی ہے کہ جرمن حکومت تارکین وطن کے انضمام کے مسائل پر اب توجہ دے رہی ہے اور اس موضوع کی سنگینی اور اس کی حساسیت کا اب جرمن ساستدانوں کو اندازہ ہوتا جا رہا ہے۔ گزشتہ چند مہینوں کے دوران تارکین وطن کے انضمام کے موضوع پر میرکل سمیت دیگر اعلیٰ سیاسی رہنماؤں کی طرف سے جو متنارعہ بیانات سامنے آئے، اُن کے منفی اثرات کا ذکر کرتے ہوئے باقر البوگا نے کہا ’یہ بات محسوس کر لی گئی ہے کہ اگر جرمنی میں اسی قسم کی بحث ہوتی رہی اور ماحول اتنا ناخوشگوار رہا تو بہت سے ہنرمند تارکین وطن یہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں گے۔‘

باقر البوگا نے کہا کہ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ اس وقت جرمنی آنے والے تارکین وطن سے زیادہ تعداد جرمنی چھوڑ کر جانے والے غیر ملکیوں کی ہے۔

دریں اثناء جرمنی میں قائم مسلمانوں کی مرکزی مشاورتی کمیٹی کے صدر ایمن مازیک نے وفاقی حکومت سے پبلک سورسز میں غیر ملکی کارکنوں کے لئے ایک کوٹہ مختص کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کے مطابق اس طرح معاشرتی سطح پر غیرملکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا امکان ختم کیا جا سکتا ہے۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں