1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پدر شاہی نظام کو ختم کرنے کے لیے مطالعہ نسواں ضروری ہے

قرۃالعین زمان20 دسمبر 2008

وومن سٹیڈیز یا مطالعہ نسواں کے شعبے کو پاکستانی جامعات میں متعارف کرانے کے بعد معاشرتی رویوں میں صنفی تعصب کے حوالے سےطلبہ سوال کر رہے ہیں ۔ یہ ایک بڑی تبدیلی ہے۔

https://p.dw.com/p/GJGp
پاکستان میں خواتین کی خواندگی کی شرح 16فی صد ہے۔تصویر: AP
Pakistan Wasserversorgung
پاکستانی خواتین غیر رسمی طور پر مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں لیکن جب بات اعدادو شمار کی ہوتی ہے تو ان کا کام کسی گنتی میں شمار نہیں کیا جاتا۔تصویر: ap

وومن سٹیڈیز یا مطالعہ نسواں کا مضمون پاکستانی یونیورسٹوں میں 1989ء میں متعارف کرایا گیا تھا ۔ اسں مضمون کی تعلیم کا مقصد طلبہ میں صنفی برابری کے حوالے سے شعور و آگاہی پیدا کرنا ہے۔ ڈاکٹر فرزانہ باری، پاکستان کی وفاقی جامعہ قائداعظم یونیورسٹی میں وومن سٹیڈیز سینٹر یا شعبہ مطالعہ نسواں کی چیئر پرسن ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’ جب طلبہ پڑھ رہے ہوتے ہیں تو ساتھ ساتھ ان کی سوچ میں تبدیلی آرہی ہوتی ہے ۔ معاشرے میں صنفی حوالے سے جو تعصب پایا جاتا ہے اس پر سوال کرنا شروع کرتے ہیں۔‘‘

وومن سٹیڈیز سینٹرز کا مستقبل: سن انیس سو نواسی میں خواتین سے متعلقہ امور کی وزارت نے پاکستان کی پانچ سرکاری یونیورسٹوں میں اس مضمون کو متعارف کرایا گیا۔ تا ہم ابتدائی مشکلات کے باعث صرف کراچی یونیورسٹی میں اس مضمون میں ماسٹرز پروگرام شروع ہو سکا۔ ڈاکٹر فرزانہ بتاتی ہیں۔ ’’ وومن سٹیڈیز سینٹرز ایک پانچ سالہ ترقیاتی پروگرام کے تحت متعارف کرائے گئے۔ خیال یہ تھا کہ پانچ سال بعد یہ سینٹرز وزارت تعلیم کی زیر نگرانی آجائیں گے اور باقاعدہ طور پر یونیورسٹیوں کا حصہ بن جائے گے لیکن 1994سے 2001 تک ان کا کوئی مستقبل نہیں تھا۔ یہ سینٹر عارضی بنیادوں پر کام کر رہے تھے۔ 2001 کے بعد یونیورسٹیوں کی زیر نگرانی آئے اور باقاعدہ طو پر کام شروع کیا گیا اور اب اس پر کام ہو رہا ہے۔‘‘


پدر شاہی نظام کو سمجھنا اور تبدیل کرنا: اس مضمون میں بنیادی طور پر صنفی برابری کے حوالے سے تعلیم دی جاتی ہے۔اس میں طلبہ کوشعور دیا جاتا ہےکہ کس طرح صنفی تعصب سماجی رشتوں اور ریاست کے اداروں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں پدر شاہی نظام کو سمجھنے اور تبدیل کرنے کے لیے لائحہ عمل کے حوالے سے آگہی دی جاتی ہے۔ ڈاکٹر فرزانہ کہتی ہیں کہ پاکستان میں بنیادی نصاب تو وہی ہے جو کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی یونیورسٹیوں میں بھی پڑھائے جاتے ہیں لیکن وسائل کی کمی کے باعث تحقیقی کام نہیں ہو رہا۔


اساتذہ کی عدم دستیابی اور معاوضے : وسائل کی کمی کے علاوہ اس مضموں کے لئے اساتذہ کی عدم دستیابی اور معاوضوں کے مسائل بھی بہت اہم ہیں۔ ڈاکٹر فرزانہ بتاتی ہیں : ’’اساتذہ کی تنخواہوں میں کمی کے باعث اچھے استاد پرائیوٹ یونیورسٹیوں میں چلے جاتے ہیں۔ ‘‘ ڈاکٹر فرزانہ باری کے خیال میں اگر صحیح معنوں میں اس مضمون پر توجہ دی جائے تو یہ مضمون معاشرتی رویوں اور سوچ میں تبدیلی کے لیے ایک بہت اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

دنیا بھر میں عورتوں کے حقوق کے حوالے سے کوششوں اور پاکستانی معاشرت میں کئی غیر سرکاری تنظیموں کی کاوشوں سے اس شعبے میں کچھ بہتری تو آئی ہے تاہم شعور و آگہی کے حوالے سے اس موضوع پر ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔