1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پشاور: انٹرنیشنل علماء کانفرنس

دانش بابر، پشاور16 مارچ 2016

پاکستان کی آبادی میں انتہائی تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ تقریبا 35سالوں میں پاکستان کی آبادی دگنی ہو چکی ہے، جو کہ ایک تشویش ناک بات ہے۔

https://p.dw.com/p/1IE3d
Pakistan Konferenz von islamischen Gelehrten in Peschawar
تصویر: DW/D. Babar

عوام میں خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے شعور پیدا کرنے اور بچوں کے پیدائش کے دوران مناسب وقفے کے بارے میں خیبر پختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور میں دو روزہ انٹرنیشنل علماء کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں درجنوں مقامی اور ملکی علماء کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی علماء، اسکالرز اور خاندانی منصوبہ بندی کے  ماہرین نے شرکت کی۔

ڈاریکٹر پلاننگ اینڈ مینٹرنگ ویلفیئر پاپولیشن ڈیپارٹمنٹ خیبر پختونخوا، محمد ولی کے مطابق اس کانفرنس کا بنیادی یہ مقصد یہ ہے کہ تمام دینی علماء اور مذہبی رہنماؤں کا ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرکے، آبادی میں اضافے جیسے مسئلے پر لوگوں کو یہ شعور دینا ہے کہ اسلام میں بھی فیملی پلاننگ اور بچوں میں وقفے کے بارے میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔

’’بین الاقوامی دینی رہنماؤں کو خصوصی طور پر اس کانفرنس میں مدعو کیا گیا ہے، تاکہ وہ اپنے علم اور تجربے سے، اسلامی احکامات کی روشنی میں بچوں میں مناسب وقفے کے بارے میں مقامی علماء اور دینی پیشواوں کی رہنمائی کرسکیں۔‘‘

Pakistan Konferenz von islamischen Gelehrten in Peschawar
مذہبی رہنماؤں کے مطابق بچوں کی پیدائش میں وقفے کی اسلام میں ممانعت نہیںتصویر: DW/D. Babar

خیبر پختونخوا حکومت کی طرف سے ترتیب دیے گئے اس پروگرام میں مرد اسکالز، ڈاکٹرز، ماہرین خاندانی منصوبہ بندی اور تعلیمی اداروں سے تعلق رکھنے افراد کے علاوہ خواتین نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی۔ جنہوں نے فیملی پلاننگ اور تولیدی صحت کے حقوق کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

مصر کے الازہر یونیوسٹی کے پروفیسر احمد راغب نے اس پرگرام کو سراہتے ہوئے کہا کہ اسلامی ممالک میں خاندانی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ وہ تجویز دیتے ہیں، ’’جس طرح ماضی میں پاکستان تمام تر صلاحیتوں کو استعمال کرکے واحد اسلامی ایٹمی طاقت بن گیا، اسی طرح پاکستان کو خاندانی منصوبہ بندی اور تولیدی صحت کے حوالے سے عالمی اسکالرز پر مشتمل ایک کمیٹی بنانے میں بھی پہل کرنا چاہیے، جو اس مد میں اسلامی دنیا کی رہنمائی کرے۔‘‘

احمد راغب مزید کہتے ہیں کہ بچوں کی پیدائش میں وقفہ ماں اور بچے، دونوں کے صحت کے لیے ضروری ہے۔

اسلامک مارڈن اسکول انڈونیشیا کے چیئرمین ڈاکٹر ریسمان موسٰی نے اس موقع پر خاندانی منصوبہ بندی میں دینی علماء کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ عوام کو بہتر طور پر سمجھا سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تمام تر مولوی حضرات، قاری اور دینی اسکالرز اگر مقامی سطح پر اپنے پیروکاروں کو بچوں کی پیدائش میں مناسب وقفے کے بارے میں آگاہ کریں تو بڑی حد تک ناصرف آبادی کے اضافے پر قابو پایا جاسکتا ہے بلکہ ہم ملک کو ایک صحت مند نسل بھی دیں گے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس قسم کے پروگرام وقفے وقفے کے ساتھ بار بار ہونا چاہیں۔ کیوں کہ اس سے علماء، کمیونٹی اور حکومتی رہنماؤں کے درمیان فاصلے بھی کم ہوں گے۔

علوم اسلامیہ پاکستان کے معلم شجاع الدین کہتے ہیں کہ اسلامی قوانین سے واضح دلیلوں کے ساتھ یہ بات واضح ہے کہ بچوں میں مناسب وقفہ ضروری ہے۔ ’’خاندانی منصوبہ بندی ہی کی وجہ سے ہم بچوں کی بہتر طور پر پرورش کرسکتے ہیں۔ اگر بچوں میں کم ازکم دو سال کا وقفہ ہو تو والدین بچے کی غذایت، تعلیم اور نگہداشت کا اچھے طریقے سے بندوبست کرسکتے ہیں۔‘‘

شجاع الدین کا موقف ہے، ’’علماء اب خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں ماضی کی اس دلیل میں تبدیلی کو سراہتے ہیں۔ جس میں اقتصادی پہلو پر زور دیا گیا تھا۔ اب خاندانی منصوبہ بندی کا تعلق خاندان کی صحت میں بہتری اور قبل از وقت زچگی ،حمل اور اس سے ہونے والی اموات سے بچانے کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔‘‘

بین الاقوامی علماء کانفرنس میں شامل تمام رہنماؤں نے اس بات کا عندیہ کیا ہے کہ وہ جدید دور کے تقاضوں اور صحت مند معاشرے کے فروع کے لئے مقامی سطح پر لوگوں کو دینی احکامات کے مطابق خاندانی منصوبہ بندی کے تعلیمات دیں گے۔