1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پشاور حملے کی پہلی برسی، سکیورٹی ہائی الرٹ

عابد حسین16 دسمبر 2015

آج سولہ دسمبر کے دِن پاکستانی شہر پشاور کے ایک اسکول پر طالبان کے خون ریز حملے کا ایک سال مکمل ہو گیا ہے۔ اِس موقع پر پاکستان میں سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1HO0C
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Arbab

پاکستانی حکام نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے میں ہلاک ہونے والوں کی پہلی برسی کے موقع پر تمام بڑے شہروں میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے ہیں۔ اہم شہروں میں نیم فوجی دستوں کے ساتھ ساتھ پولیس کی اضافی نفری بھی تعینات کی گئی ہے۔ ایک سال قبل پشاور کے اسکول پر طالبان عسکریت پسندوں کے حملے میں ایک سو اکاون طلبا اور ٹیچرز ہلاک ہو گئے تھے۔ پاکستان فوج کے زیرانتظام چلنے والے اسکول پر حملہ کرنے والے نو دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔

وزارتِ داخلہ کے ترجمان کے مطابق آج اس دن کے تناظر میں سارے ملک میں سکیورٹی کو انتہائی چوکس کر دیا گیا ہے۔ کئی شہروں میں اضافی پولیس کے دستے اہم مقامات پر تعینات کر دیے گئے ہیں۔ ترجمان کے مطابق حساس مقامات پر پیرا ملٹری کے جوان پہرہ دے رہے ہیں۔ آج کے دن کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے شمال مغربی صوبےکے صدر مقام پشاور میں فوج کے دستے کئی سڑکوں پر متعین کر دیے گئے ہیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ پاکستان بھر میں تمام آرمی پبلک اسکولوں کو شدید خطرات لاحق ہونے کی وجہ سے ان کی نگرانی بھی معمول سے کہیں زیادہ کر دی گئی ہے۔

Wiedereröffnung von Schulen in Pakistan nach Anschlag 12.01.2015
پشاور میں فوج کے دستے کئی سڑکوں پر متعین کر دیے گئے ہیںتصویر: DW/F. Khan

ایسا امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ آرمی پبلک اسکول پشاور میں ہونے والی خصوصی تقریب میں وزیراعظم نواز شریف کی شرکت متوقع ہے۔ اِسی تقریب میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اور پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان بھی شریک ہوں گے۔ پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا میں عمران خان کی سیاسی جماعت کی حکومت ہے۔ عمران خان نے اِس موقع پر کہا کہ آج کے دن رونما ہونے والی ٹریجیڈی کا ایک سال مکمل ہونے پر وہ ساری پاکستانی قوم سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ انتہا پسندی کے خلاف مضبوطی سے کھڑے ہو کر اِسے شکست دیں۔

ایک سال گزرنے پر پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں زندگی کے روز و شب اب معمول پر آ چکے ہیں لیکن اِس حملے میں زخمی ہونے والے اب بھی اُس واقعے پر لرز اٹھتے ہیں۔ ایک چودہ سالہ طالب علم احمد نواز کو ایک حملہ آور کی گولی بازو میں لگی تھی اور اُس کا بھائی حملے کے دوران کی جانے والی فائرنگ میں ہلاک ہو گیا تھا۔ احمد نواز کا اُس واقعے کو یاد کر کے کہنا ہے کہ اُس نے اپنی ٹیچر کو زندہ جلتے دیکھے ہے اور وہ دوست جن کے ساتھ کھیلتا تھا، وہ گولیاں لگنے سے ہلاک ہو چکے تھے۔ اُس نے مزید کہا کہ وہ لاشوں کے ڈھیر میں تھا اور یہ سب ایک انتہائی ڈراؤنے خواب جیسا ضرور ہے لیکن آج بھی وہ اِس کا احساس کر کے خوف سے کانپ جاتا ہوں۔ اسی طرح وہ والدین ابھی بھی غمزدہ ہیں جن کے جگر پارے اسکول پڑھنے گئے تھے لیکن انہیں اُن کی لاشیں ملی تھیں۔