1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پشاور: رمضان میں سکھ برادری کی جانب سے افطاری کے انتظامات

دانش بابر، پشاور
9 جون 2017

خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں مقیم اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے سکھ خاندان نے رمضان کے مہینے میں غرباء اور مسافر روزہ داروں کے لیے افطار کا اہتمام کر کے مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2eNgT
Pakistan Ramadan
تصویر: DW/D. Babar

ماہ رمضان کے شروع ہوتے ہی ہر منگل، جمعرات اور جمعہ کے شام شاہ قبول پولیس اسٹیشن کے قریب واقع اپنے میڈیکل اسٹور کے سامنے صاحب سنگھ اور اس کے خاندان کے دوسرے نوجوان سٹال سجادیتے ہیں، جہاں پر ہر خاص و عام مسلم روزہ دار کو روزہ کے لیے افطار کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ صاحب خاندان روزانہ کی بنیاد پرقریب ایک ہزار روزہ داروں میں ٹھنڈے مشروبات اور دوسری اشیاء مثلاﹰ کھجور، سموسے، پکوڑے وغیرہ تقسیم کرتا ہے۔

ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے صاحب سنگھ کا کہنا تھا کہ ان کے اس اقدام کا مقصد ماہ رمضان کا احترام اور مسلم برادری کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا ہے۔ صاحب سنگھ کے مطابق وہ سن 2001 سے باقاعدگی کے ساتھ ماہ رمضان میں مسلمان بھائیوں کے ساتھ بھائی چارے ، ثواب اور غریب لوگوں کی مدد کے عرض سے ہر سال افطاری تقسیم کرتے ہیں۔

سنگھ کا کہنا تھا، ’’جس طرح بیساکھی اور گرونانک کے جنم دن کے موقع مسلمان بھائی ہمارے لیے سبیل کا اہتمام کرتے ہیں اور دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے سکھ برادری کے لوگوں کا خیال رکھتے ہیں، اسی سوچ کو لے کر اور مسلم سکھ بھائی چارے کو مزید مضبوط کرنے کے لیے ہم نے یہ اقدام شروع کیا۔‘‘

صاحب سنگھ کے بقول وہ اپنے خاندان کے دوسرے افراد کے ساتھ مل کر نہ صرف رمضان بلکہ 12 ربیع الاول اور10 محرم الحرام کے ایام پر بھی شربت تقسیم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ رمضان میں ہر ہفتے جمعہ کے دن دسترخوان کا بھی انتظام کیا جاتا ہے جہاں ہر قسم کے لوگ روزہ افطار کرسکتے ہیں۔

یونین کونسل شاہ قبول کے ناظم محمد خان خلیل کے مطابق یہ پاکستان میں سکھ اور مسلمان برادری کے درمیان دوستی کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ وہ سمجھتے ہیں، ’’یہ بین المذاہب ہم آہنگی کی بہترین مثال ہے، علاقے کے تمام مسلم اور اقلیتی رہنما اس اقدام کو سراہتے ہیں اور صاحب سنگھ اور اس کے خاندان کے شکرگزار ہیں۔‘‘

افطار سے قریب ایک گھنٹہ پہلے صاحب سنگھ اور اس کے ساتھی تمام تر انتظامات مکمل کر لیتے ہیں، اور اپنی دوکان کے باہر ایک میز پر لسی اور شربت سے بھرے برتن اور چھوٹے خاکی لفافوں میں بند کجھوروں، پکوڑوں اورسموسوں کے پیکٹ لگا لیتے ہیں۔ جس کے بعد لوگوں کا ہجوم جمع ہونا شروع ہوجاتا ہے اور مغرب کی آذان تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے جس دوران غریب، مسکین، مسافر، نوجوان، بزرگ اور حتٰی کہ بچے بھی افطاری کا سامان لینے قطار میں کھڑے نظر آتے ہیں۔

Pakistan Ramadan
عائشہ دھیمے انداز میں صاحب سنگھ کو کہتی ہے، ’’ماما ، مالہ ھم شربت راکڑہ۔۔۔‘‘ (ماموں مجھے بھی شربت دو)تصویر: DW/D. Babar

ہجوم میں ایک طرف کھڑی کمسن عائشہ اور اسکا چھوٹا بھائی بھی شربت اور افطاری لینے آئے ہیں۔ عائشہ مسلسل دھیمی آواز سے صاحب سنگھ کو مخاطب کرکے کہتی ہے، ’’ماما ، مالہ ھم شربت راکڑہ۔۔۔‘‘ (ماموں مجھے بھی شربت دو) لسی کا تھیلا اور افطاری کے پیکٹ حاصل کرنے کے بعد عائشہ اور اسکا بھائی خوش ہیں کیوں کہ آج وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ افطاری میں یہ شربت پیئیں گے۔

عائشہ کی طرح بیالیس سالہ رشید خان، جوکہ سبزی کی ریڑھی لگاتا ہے، صاحب سنگھ سے افطاری لینے آیا ہے۔ رشید خان کہتا ہے کہ صاحب سنگھ کے اس اقدام کی جتنی بھی تعریف کی جائے، کم  ہے، وہ مزید کہتا ہے۔

جتندر سنگھ مشروبات کی تیاری میں صاحب سنگھ کی مدد کرتے ہیں۔ ان کے بقول ان کے علاقے میں سکھ اور مسلمانوں کے درمیان بہت گہری دوستی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ دونوں بھائی چارے کی زندگی گزارتے اور ایک دوسرے کی غم اور خوشی میں بھی شریک ہوتے ہیں۔ جتندر کے مطابق مشروبات کی تیاری اور تقسیم کے دوران ان کے ساتھ ان کے مسلمان دوست بھی حصہ لیتے ہیں۔

صاحب سنگھ کہتے ہیں کہ گوکہ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر ان کے افطاری پروگرام کو رواں سال پذیرائی ملی اور پاکستان کے علاوہ بین الاقوامی میڈیا میں ان کے اقدامات کو سراہا جا رہا ہے، تاہم وہ اور ان کا خاندان لگ بھگ سولہ برسوں سے اس قسم کے افطاری کے انتظامات کر رہے ہیں جس کا مقصد انسانیت کی خدمت کرنا اور دنیا کو پیغام دینا ہے کہ پاکستان ایک پرامن ملک ہے اور اس میں تمام مذاہب کے لوگ بھائی چارے کے بندھن میں جڑے ہوئے ہیں۔

پاکستان میں مردم شماری کا عمل اور اقلیتیں