1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پناہ کی تلاش ميں ايک در سے دوسرے در تک

عاصم سلیم
26 فروری 2017

اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين کے کينيڈا ميں تعينات ایک نمائندے کے مطابق پچھلے چند ہفتوں سے سينکڑوں پناہ گزين امريکا اور کينيڈا کی سرحد پر جمع ہو رہے ہیں تاکہ وہ کينيڈا کی طرف ہجرت کر سکیں۔

https://p.dw.com/p/2YGt8
Syrische Flüchtlinge in der USA
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Rourke

اقوام متحدہ کے ادارے يو اين ايچ سی آر کے کينيڈا ميں تعينات نمائندے ژاں نکلس بيوزے کے بقول کينيڈا کی طرف ہجرت کرنے والے ان پناہ گزينوں کا تعلق يمن، شام، ترکی اور سوڈان سے ہے۔ بيوزے کا کہنا ہے کہ تاحال يہ واضح نہيں کہ ہجرت کا يہ رجحان عارضی ہے يا يہ طويل المدتی بنيادوں پر جاری رہے گا۔ حقائق تک پہنچنے کے ليے يو اين ايچ سی آر نے دونوں ملکوں کے بارڈر پر مانٹريال سے ستر کلوميٹر جنوب ميں واقع لاکولے کے مقام پر ايک مشن بھيجا۔ وہاں صورت حال يہ ہے کہ پورے پورے خاندان اپنے سامان کے ساتھ ہجرت کرتے ہوئے ديکھے جا سکتے ہيں۔ يہ لوگ سخت سردی ميں طويل مسافت کے بعد کينيڈا ميں سکون کا سانس لينے کی اميدوں کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہيں۔

ژاں نکلس بيوزے نے خبر رساں ادارے اے ايف پی کو بتايا، ’’يہ لوگ مہاجرين نہيں بلکہ پناہ گزين ہيں۔‘‘ ان کے بقول يہ لوگ بہتر زندگی کی غرض سے کينيڈا ہجرت نہيں کر رہے بلکہ ان کا مقصد اپنے آبائی ممالک ميں جاری ظلم و تشدد سے فرار ہونا ہے۔

امريکا ميں ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد سے وہاں کا سياسی ماحول کافی تبديل ہو چکا ہے۔ وہاں اب بالخصوص تارکين وطن اور مہاجرين پس منظر والے افراد کے خلاف منفی جذبات کثرت سے پائے جاتے ہيں۔ ايسے ميں کئی لوگ سياسی پناہ کی تلاش ميں کينيڈا کا رخ کر رہے ہيں۔بيوزے نے بتايا، ’’لوگوں کو خوف ہے کہ وہ امريکا ميں ايک ايسے نظام سے دوچار ہو سکتے ہيں جو شفاف نہ ہو۔‘‘

USA Demonstration von Flüchtlingen in Durham
تصویر: picture alliance/AP Photo/B. Thomas

امريکا اور کينيڈا کے مابين طے شدہ ايک معاہدے کے تحت سياسی پناہ کے متلاشی افراد اس ملک ميں پناہ کی درخواست نہيں دے سکتے جہاں ان کی آمد نہ ہوئی ہو تاہم اگر وہ ہوائی اڈوں، چيک پوائنٹس يا ٹرين اسٹيشنوں کے ذريعے نہ آئے ہوں اور ان کے کسی ملک ميں داخلے کا کوئی ريکارڈ نہ ہو، تو پھر ان کے ليے دوسرے ملک ہجرت کرنا مسئلہ نہيں۔ يہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ يہ سفر پيدل کر رہے ہيں تاکہ کاغذی کارروائيوں سے بچا جا سکے۔

امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ يہ عنديہ دے چکے ہيں کہ وہ عنقريب ايک اور حکم نامہ جاری کريں گے، جو ان کے سابقہ اور وفاقی عدالت کی جانب سے روک ديے جانے والے اميگريشن بين کی جگہ متعارف کرايا جائے گا۔ اس حکم نامے ميں مسلمان اکثريت والے سات ملکوں کے شہريوں پر نوے روز کے ليے امريکا ميں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی جبکہ تمام مہاجرين پر پابندی کی مدت چار ماہ تھی۔ شامی مہاجرين پر غير معينہ مدت تک کے ليے بھی پابندی کا اعلان کيا گيا تھا۔

اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين  کے کينيڈا ميں تعينات نمائندے ژاں نکلس بيوزے نے اے ايف پی کو بتايا ہے کہ کينيڈا اور امريکا کی سرحد پر جتنے بھی پناہ گزين انہيں ملے، وہ سب اعلیٰ تعليم يافتہ اور مالی لحاظ سے مضبوط تھے۔ ان کی اکثريت کے پاس امريکا کے ويزے موجود ہيں اور وہ وہاں ٹرانزٹ کے ليے موجود تھے۔