1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پناہ گزين جوڑے کا ’اجنبيوں‘ سے ’ٹور گُائيڈ‘ بننے تک کا سفر

عاصم سليم / Knight, Benjamin5 مئی 2016

جرمنی ميں پناہ کے متلاشی ايک شامی جوڑے نے صرف چھ ماہ ميں تمام تر رکاوٹيں دور کرتے ہوئے ملازمت بھی شروع کر دی ہے۔ آج کل يہ دونوں برلن ميں ’ٹُور گائيڈ‘ کی حيثيت سے کام کرتے ہيں اور اپنی زندگی سے کافی مطمئن نظر آ رہے ہيں۔

https://p.dw.com/p/1Iie4
تصویر: DW/B. Knight

کہا يہ جاتا ہے کہ اگر کسی چيز کو حاصل کرنے کی جستجو سچی ہو، تو پوری کائنات اس کے حصول ميں آپ کی مدد کرنے لگتی ہے۔ شامی پناہ گزين سمير سراوان اور اُن کی اہليہ اريج اوديہ کے ساتھ بھی ايسا ہی ہوا۔ دمشق کے رہائشی اس جوڑے ميں ايک انجان ملک ميں اپنی پہچان بنانے اور ايک نئی زندگی شروع کرنے کی لگن اس قدر زيادہ تھی کہ چھ ہی ماہ ميں انہوں نے اپنی زندگی کو ايک نيا رُخ دے ڈالا۔

سمير اور اريج گزشتہ برس نومبر ميں جرمن دارالحکومت برلن پہنچے تھے تاہم ان دنوں يہ دونوں اِس تاريخی شہر ميں سياحوں کو سير کرانے يعنی ’ٹُور گائيڈ‘ کا کام کرتے ہيں۔ دونوں نے شہر کے دور دراز علاقوں اور چپے چپے کو اس قدر اچھی طرح سے پہچان ليا ہے کہ اب تو سالہا سال سے برلن ميں رہنے والے بھی ان کے آگے کچھ نہيں۔

برلن کے ’نوئے کولن‘ نامی علاقے ميں سياحوں کے ايک گروپ کو کھچا کھچ بھری ايک سڑک ’زونن آلے‘ کی سير کراتے ہوئے سمير انہيں بتاتا ہے کہ وہ اور ديگر عرب باشندے اس سڑک کو عرب اسٹريٹ کے نام سے پکارتے ہيں، جس کی وجہ يہ ہے کہ سڑک پر موجود قريب تمام ہی دکانوں کے نام عربی ہيں۔ شايد يہی وجہ ہے کہ خواہ وہ شہر کے کسی بھی حصے ميں ہوں، عرب نژاد تمام باشندے اس سڑک کی جانب کھنچے چلے آتے ہيں۔ سمير اور ان کی اہليہ بھی شہری انتظاميہ کی طرف سے ملنے والے اپنے ماہانہ نوّے يورو يہيں خرچ کرنے آتے ہيں۔ ان کے بقول انہيں يہاں اپنے من پسند مصالحہ جات، پکوان اور اشياء ہی نہيں بلکہ دکان داروں کے ساتھ عربی زبان ميں گفت و شنيد کرنے کا موقع بھی مل جاتا ہے۔

سياحوں کے ليے ان ٹورز کا انتظام ’کوئيراشٹٹ ٹائين‘ نامی کمپنی کرتی ہے۔ اس کمپنی کے خاص بات يہ ہے کہ يہ ايسے گروپوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو مواقع فراہم کرتی ہے، جن کی مرکزی دھارے ميں نمائندگی کم ہو يا جو اقليت کا حصہ ہوں۔ سمير اور اريج ’کوئيراشٹٹ ٹائين‘ سے وابستہ پہلے پناہ گزين ہيں۔ صارفين دو گھنٹوں پر مشتمل اس سفر کے ساڑھے چھ يورو ادا کرتے ہيں، جس دوران انہيں مختلف مقامات کے بارے ميں مطلع کيا جاتا ہے۔

سمير سياحوں کے ايک گروپ کو نقشے کی مدد سے اپنے سفر کے بارے ميں بتاتے ہوئے
سمير سياحوں کے ايک گروپ کو نقشے کی مدد سے اپنے سفر کے بارے ميں بتاتے ہوئےتصویر: DW/B. Knight

کبھی کبھار سفر کے دوران مختلف ممالک سے آنے والے سياحوں سے بات چيت کے دوران سمير اور اريج انہيں اپنی کہانی بھی سنا ديتے ہيں۔ وہ شامی دارالحکومت سے تيس دن کا سفر طے کرتے ہوئے جرمنی پہنچے تھے۔ اس دوران انہيں خطرناک سرحدی گزر گاہ پار کرتے ہوئے پہلے ترکی ميں داخل ہونا پڑا اور پھر ايک کشتی پر بحيرہٴ ايجيئن بھی پار کرنا پڑا۔ سمير بتاتا ہے کہ جس کشتی پر اس نے اپنی اہليہ کے ساتھ يونان پہنچنے کے ليے سفر کيا، اس کی گنجائش سترہ افراد کی تھی ليکن اس پر سينتاليس افراد سوار تھے۔ پھر وہ بلقان خطے کے ممالک سے گزرتے ہوئے پيدل چل کر جرمنی پہنچے۔

شام ميں سمير اور اريج وکالت کے طالب علم رہ چکے ہيں۔ مارچ سن 2011 ميں شامی خانہ جنگی شروع ہونے سے قبل سمير ايک کمپنی ميں مينيجر کی حيثيت سے ملازمت کيا کرتا تھا۔ پھر ديکھتے ہی ديکھتے سب کچھ جنگ کی نذر ہو گيا۔

جرمنی اور بالخصوص برلن آمد کے بعد ان دونوں شامی پناہ گزينوں نے سابقہ اور تاريخی اہميت کے حامل ٹيمپل ہوف ہوائی اڈے کے احاطے ميں قائم مہاجر کيمپ ميں کچھ ماہ گزارے۔ بعد ازاں انہيں ايک اور مقام پر منتقل کر ديا گيا، جہاں انہيں ايک کمرہ دے ديا گيا۔ وقت بڑی تيزی سے گزرا اور سياسی پناہ کی دستاويزی کارروائی، تمام متعلقہ محکموں ميں اندراج وغيرہ جيسے انتظامی مسائل عبور کرنے کے دوران ان دنوں نے جرمن زبان بھی سيکھ لی اور آج يہ اپنے پيروں پر کھڑے ہيں۔ شايد يہ وہ مقام تو نہيں، جو انہيں اپنے آبائی ملک ميں مل سکتا تھا ليکن صرف چھ ہی ماہ ميں ان دونوں پناہ گزينوں نے جرمن دارالحکومت ميں اپنی چھوٹی سی جگہ ضرور بنا لی ہے۔