1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’پناہ گزینوں کے لیے مزید اقدامات کی فوری ضرورت‘

زیگمار گابریل / ڈیوڈ ملی بینڈ/ کشور مصطفیٰ5 اکتوبر 2015

جرمن وائس چانسلر زیگمار گابریل اور سابق برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ نے یورپی یونین اور دیگر صنعتی ممالک کی طرف سے پناہ گزینوں کے بحران کے حل کے لئے مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Givy
تصویر: picture-alliance/AA/I. Erikan

ان دونوں اہم شخصیات نے ڈوئچے ویلے کے لیے ایک خصوصی مہمان تبصرے میں یورپ کو درپیش پناہ گزینوں کے مسائل کے حل کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کیا ہے۔ ’’شام کی خانہ جنگی کے آغاز کو چار سال گزر گئے۔ اب یورپی اور امریکی سیاستدان اس سنگین بحران کو مزید نظر انداز نہیں کر سکتے۔ امریکی حکومت اگرچہ مشرق وسطیٰ میں بہت زیادہ فعال کردار ادا کر رہی ہے تاہم شام کے بحران کو اُس نے یورپ کا مسئلہ قرار دے کر اپنے لیے ایک آسان راہ نکال لی ہے۔ دوسری جانب انسانی وقار اور انسانی حقوق کے تحفظ کے ضمن میں یورپ کا رد عمل بھی ایک اتحاد کی حیثیت سے اب تک کوئی آئیڈیل نہیں رہا ہے۔‘‘

Leipzig SPD Parteitag Sigmar Gabriel
جرمن وائس چانسلر زیگمار گابریلتصویر: Imago

مسائل کی جڑوں سے نمٹنا

’’حلب میں ہم کب کا ختم ہو چُکے ہیں‘‘۔ یہ کہنا تھا ایک شامی پناہ گزین کا جب اُس سے یونان کے سرحدی جزیرے لیسبوس پر پہنچنے پر یہ سوال کیا گیا کہ آخر اُس نے بحیرہ روم کے رستے ترکی کا خطرناک سفر کیوں کیا؟۔ لاکھوں شامی باشندے انہیں وجوہات کے سبب شام سے فرار ہونے پر مجبور ہوئے ہیں۔ 1951ء کے جینیوا کنونشن کے تحت ان مہاجرین کو تحفظ کے حصول کے لیے پناہ کی تلاش کا حق حاصل ہے۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ شامی پناہ گزینوں کی اتنی بڑی تعداد مختلف ریاستوں کے اُن 20 ملین انسانوں کا محض ایک حصہ ہیں جو جبر و تشدد کا شکار ہو کر دیگر ریاستوں کی طرف پناہ کی تلاش میں سر گرداں ہیں۔ خود اپنے ہی ملک میں جنگ و جدل اور تعقب کے شکار ایسے افراد کی تعداد بھی 40 ملین ہے۔ اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کی ایجنسی کی طرف سے پناہ گزینوں کی اندراج شُدہ یہ اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

ان سانح‍ات کی وجوہات گہری ہیں جنہیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔ یورپی یونین اپنی طرز کا واحد سفارتی سیاسی اور ترقیاتی تکنیک کا آلہ ہے۔ یورپی یونین میں شامل ممالک کے حکومتی سربراہان کو چاہیے کہ اس سے فائدہ اُٹھائیں۔ انہیں سفارتی ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے دنیا کے بحران زدہ علاقوں میں جاری تشدد کو روکنا چاہیے۔ یہ تشدد روزانہ 42 ہزار پانچ سُو انسانوں کو فرار ہونے پر مجبور کر رہا ہے۔

Labour Parteitag in Manchester David Miliband
سابق برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈتصویر: AP

عشروں سے جاری افغانستان، صومالیہ اور دیگر ممالک کا بحران راتوں رات ختم نہیں ہو سکتا۔ شام کے پناہ گزینوں کو اپنے وطن لوٹنے کے بارے میں سوچنے کا وقت آنے میں ابھی بہت سال لگیں گے۔ اس لیے بھی ان کے لیےترقیاتی امداد کو تیز رفتار اور طویل المیعاد بنانے کی اشد ضرورت ہے۔

شام کے ہمسایہ ممالک کی امداد ضروری

شام اس وقت سب سے بڑا اور گہرا زخم بنا ہوا ہے۔ اس کے پڑوسی ممالک اُردن اور لبنان کو براہ راست مالی اور ترقیاتی امداد کی ضرورت ہے تاکہ یہ ریاستیں اپنے بنیادی ڈھانچے کو دوبارہ سے کھڑا کر سکیں اور شامی پناہ گزینوں کے لیے تعلیم اور روز گار کا مناسب بندو بست کیا جا سکے۔ ترکی، عراق، اُردن اور لبنان اس وقت چار ملین پناہ گزینوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ محض اُردن میں 2016 ء تک آنے والے شامی پناہ گزینوں پر اخراجات کا تخمینہ 4,2 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔