1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پنجاب میں خواتین کا موٹرسائیکل چلانا، اب ’ایک عام سی بات‘

تنویر شہزاد، لاہور5 جنوری 2016

حکومت پنجاب نے سفری مسائل کے حل کے لیے صوبے کے 36 اضلاع میں خواتین اور طالبات کوسکوٹیز فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔اس مقصد کے لیے لاہور میں "ویمن آن ویلز" نامی ایک پائلٹ پروجیکٹ پر کام کا آغاز ہو گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1HY9h
Pakistan Kampagne Frauen auf Motorrädern
تصویر: DW/T. Shahzad

تفصیلات کے مطابق اس منصوبے کے پہلے مرحلے میں لاہور کے علاقے ٹھوکر نیاز بیگ میں پنجاب ٹریفک پولیس کے تعاون سے خواتین کو سکوٹیز چلانے کی بلا معاوضہ تربیت فراہم کی جا رہی ہے۔ دس جنوری کو لاہور میں سکوٹیز چلانے والی ڈیڈھ سو خواتین کو سرٹیفیکیٹس دیے جائیں گے اور اس موقعے پر ایک سو سے زائد خواتین ایک ریلی کی صورت میں پہلی مرتبہ لاہور کی سڑکوں پر سکوٹیز چلائیں گی۔

پاکستانی معاشرے میں خواتین کوآمدورفت کے حوالے سے شدید مسائل کا سامنا رہتا ہے، پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی اور معاشرتی مسائل کی وجہ سے خواتین کے لیے آزادانہ طور پر سفر کرنا آسان نہیں ہوتا۔ پاکستان کے کئی علاقوں میں گاڑی ڈرائیو کرنے والی خواتین کو بھی حیرانی کے ساتھ دیکھا جاتا ہے۔ کیا ایسے معاشرے میں یہ منصوبہ کامیاب ہو سکے گا؟ اس سوال کے جواب میں اس پراجیکٹ کے سربراہ سلمان صوفی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ترقی کی راہ میں حائل معاشرتی قدغنوں کا حل نکالنا ہی حکومتوں کا کام ہوتا ہے۔ سلمان صوفی پنجاب کے چیف منسٹر آفس میں اسپیشل مانیٹرنگ یونٹ میں سینئیر رکن کے عہدے پر رضاکارانہ طور پر کام کر رہے ہیں۔

Pakistan Kampagne Frauen auf Motorrädern
سلمان صوفی بتاتے ہیں کہ اس منصوبے پر بہت اچھا ردعمل مل رہا ہےتصویر: DW/T. Shahzad

سلمان صوفی بتاتے ہیں کہ اس منصوبے پر بہت اچھا ردعمل مل رہا ہے۔ خواتین ارکان اسمبلی، خواتین اینکر پرسنز، لیڈی ڈاکٹروں، نرسوں اور خواتین ٹیچروں سمیت چھ سو سے زائد خواتین نے سکوٹیز چلانے کی تربیت حاصل کرنے کے لیے ان سے رابطہ کر لیا ہے۔ ان کے بقول سکوٹیز چلانے کی تربیت حاصل کرنے والے خواتین سرکار سے سکوٹیز حاصل کرنے کی اہل ہوں گی۔ سکوٹیز کی پچاس فی صد رقم حکومت ادا کرے گی باقی پچاس فی صد رقم آسان اقساط پر بینک آف پنجاب سے ملنے والے بلا سود قرضوں کے ذریعے خواتین ادا کر سکیں گی۔ پہلے مرحلے پر صرف لاہور شہر میں ایک ہزار سکوٹیز دی جا رہی ہیں، بعد ازاں یہ سلسلہ دوسرے اضلاع تک پھیلا دیا جائے گا اور یہ منصوبہ 2018 تک مکمل کر لیا جائے گا۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سکوٹیز چلانے والی خواتین کے موبائل فون میں ایک ایپ ہو گی، جس کے ذریعے سکوٹیز چلانے والی کوئی خاتون کسی واردات پیش آنے کی صورت میں ایک بٹن دبا کر فوری طور پر ریپڈ ریسپانس فورس کو اپنی مدد کے لیے طلب کر سکتی ہیں۔

خواتین کی ایک رہنما اور ویمن ورکنگ آرگنائزیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر آئمہ محمود نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایک ایسا معاشرہ جہاں خواتین کو ہراساں کرنے، انہیں تشدد کا نشانہ بنانے اور ان پر جملے کسنے کے واقعات عام طور پر سامنے آتے رہتے ہیں، اس معاشرے میں خواتین کی پولیس کی مناسب تعداد موجود نہ ہونے کی وجہ سے اس منصوبے کی کامیابی کے حوالے سے کچھ کہنا آسا ن نہیں ہے۔ ان کے بقول خدشہ ہے کہ یہ سکوٹیز کہیں میرٹ کی بجائے سیاسی بنیادوں پر تقسیم نہ ہو جائیں، اگر میرٹ پر ملنے والی موٹر سائیکلیں بھی خواتین کے گھر والے مرد ہی چلائیں گے تو پھر پنجاب کی خواتین کو آمدورفت کی سہولت فراہم کرکے امپاور کرنے کے مقاصد پورے نہیں ہو سکیں گے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پنجاب میں اگلے سال سے نویں، دسویں اور بارہویں جماعتوں کے سلیبس میں بچے جو درسی کتب کلاسوں میں پڑھیں گے ان میں خواتین پر تشدد کے خاتمے کے حوالے سے بھی مواد موجود ہوگا۔