1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پندرہ برس جیل اور نظر بندی کے بعد سوچی کی رہائی

13 نومبر 2010

میانمار کی خاتون اپوزیشن رہنما آؤنگ سان سُوچی کو پندرہ برس کی جیل اور نظر بندی کے بعد بالآخر رہا کر دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/Q7tx
13 نومبر: حامیوں سے مخاطب سُوچیتصویر: AP

امن کا نوبل انعام حاصل کرنے والی یہ 65 سالہ سیاستدان اپنی نظر بندی ختم ہونے کے بعد آج اپنی رہائش گاہ کے گیٹ پر آئیں، جہاں بڑی تعداد میں اُن کے حامی جمع تھے۔ سُوچی کو دیکھتے ہی اِس ہجوم نے خوشی سے نعرے لگائے اور قومی ترانہ گانا شروع کر دیا۔

اُن کی رہائی کی خبر سنتے ہی لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنی اِس مقبول رہنما کی رہائش گاہ کی طرف جانا شروع ہو گئی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہاں پانچ ہزار افراد جمع ہو گئے تھے۔ سُوچی اپنے حامیوں کے جوش کو دیکھ کر پہلے مسکراتی رہیں، پھر اُنہوں نے اپنے مختصر خطاب میں اُن کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اب وہ کل اتوار کو اپنی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی NLD کے پارٹی ہیڈکوارٹر میں اُن سے ملیں گی۔

Wahlen in Birma Dossierbild 2
سات نومبر کو منعقدہ پارلیمانی انتخابات کو پوری دُنیا میں محض نمائشی انتخابات قرار دیا جا رہا ہےتصویر: AP

پوری دُنیا میں حقوقِ انسانی کے لئے سرگرم گروپوں نے سُوچی کی رہائی کا خیر مقدم کیا ہے۔ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ یہ رہائی بہت پہلے عمل میں آ جانی چاہئے تھی۔ اُنہوں نے کہا کہ ’آؤنگ سان سُوچی ہم میں سے ہر اُس شخص کے لئے ایک تحریک کی حیثیت رکھتی ہیں، جو آزادیء اظہار، جمہوریت اور انسانی حقوق پر یقین رکھتا ہے‘۔

بتایا گیا ہے کہ میانمار کی فوجی حکومت کی جانب سے سرکاری طور پر یہ فرمان پڑھ کر سنایا گیا کہ اُن کی نظر بندی ختم کی جا رہی ہے، جس کے بعد گزشتہ سات برسوں میں وہ پہلی بار گھر سے باہر نکل سکی ہیں۔ اِس سے پہلے فوجی حکومت نے دارالحکومت ینگون میں حفاظتی انتظامات سخت کر دئے تھے۔ جیسا کہ میانمار میں سیاسی کشیدگی کے دوران ہمیشہ ہی ہوتا آیا ہے، مختلف مقامات پر پولیس کے اہلکار ٹرکوں میں بیٹھے چوکس نظر آئے۔

Burma bevorstehende Freilassung von Suu Kyi
ینگون میں نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے ہیڈ کوارٹر میں سینوں پر سُوچی کی تصاویر سجائے اُن کے حامیتصویر: AP

گزشتہ ہفتے میانمار میں بیس برسوں کے عرصے میں پہلے آزادانہ انتخابات منعقد ہوئے تھے، جنہیں ناقدین محض ایسے نمائشی انتخابات قرار دے رہے ہیں، جن کا مقصد فوجی حکومت کو اقتدار پر جمے رہنے کا جواز فراہم کرنا تھا۔ ان انتخابات میں فوجی قیادت کی ہی منظورِ نظر ایک جماعت کو پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں اکثریت حاصل ہو گئی۔

اِس سے پہلے آخری مرتبہ آزادانہ انتخابات 1990ء میں ہوئے تھے، جن میں آؤنگ سان سُوچی کی NLD کو واضح طور پر فتح حاصل ہوئی تھی تاہم مسلح افواج نے اُنہیں اقتدار سونپنے سے انکار کر دیا تھا۔ اِس کے بعد ملک کی جمہوری قوتوں کو ہر طرح سے دبانے اور کچلنے کی کوششیں کی گئیں۔ گزرے پندرہ برسوں سے زیادہ کا عرصہ سُوچی نے قید یا نظر بندی میں گزارا۔

رپورٹ : امجد علی/ خبر رساں ادارے

ادارت : شادی خان سیف

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں