1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’پندرہ برس‘ کی عمر میں گرفتار کیا گیا مجرم تختہ دار کا منتظر

عاطف بلوچ26 ستمبر 2015

پاکستان میں انصار اقبال نامی ایک ایسے مجرم کی سزائے موت پر عملدرآمد کیا جا رہا ہے، جس کا دعویٰ ہے کہ جب اسے گرفتار کیا گیا تھا تو وہ ’پندرہ برس‘ کا تھا۔ اقبال کا یہ کہنا بھی ہے کہ وہ اس جرم میں ملوث نہیں تھا۔

https://p.dw.com/p/1Ge46
Symbolbild Todesstrafe Galgen
تصویر: picture-alliance/dpa

خبر رساں ادارے روئٹرز نے بتایا ہے کہ انصار اقبال کے وکلاء نے زور دیا ہے کہ ان کا مؤکل نہ صرف بے قصور ہے بلکہ جب اسے گرفتار کیا گیا تھا تو اس کی عمر صرف ’پندرہ برس‘ تھی۔ انصار اقبال کو سولہ برس قبل اس کے ایک دوست کے ساتھ مل کر اپنے ہمسائے کو قتل کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اقبال کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ کرکٹ میچ پر بحث کے بعد یہ واقعہ رونما ہوا تھا لیکن اس میں اقبال ملوث نہیں تھا۔

انصار اقبال کے بقول اسے اس کیس میں اس لیے پھنسایا گیا کیونکہ وہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اور اپنا دفاع نہیں کر سکتا تھا۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ پولیس نے اس کے گھر سے ’جو گنیں برآمد کی تھیں، وہ دراصل پولیس نے ہی اس کے گھر میں چھپائی تھیں‘۔

پاکستان قوانین کے تحت کسی کم عمر بچے کو سزائے موت نہیں دی جا سکتی لیکن اس کیس میں ملکی عدالتوں نے اقبال کے اسکول کے ریکارڈ اور پیدائش کے سرٹیفیکٹ پر غور کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ کہا گیا تھا کہ یہ اہم کاغذات دیر سے جمع کرائے گئے تھے۔ اقبال کے اسکول ریکارڈز کے مطابق جب اسے گرفتار کیا گیا تھا تو اس کی عمر پندرہ یا سولہ برس تھی۔

Pakistan Shafqat Hussain Todeskandidat
پاکستان میں شفقت حسین کو بھی پھانسی دی گئی تھی، جو گرفتاری کے وقت صرف سترہ برس تھاتصویر: Getty Images/AFP/S. Qayyum

انصار اقبال کے وکیل منیر باسط نے روئٹرز کو بتایا ہے کہ اس کے مؤکل کو بالغ تصور کرکے قانونی کارروائی کی گئی تھی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انصار اقبال کو آئندہ ہفتے سرگودھا کی ایک جیل میں تختہ دار پر لٹکانے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔

پاکستان میں سزائے موت پر عائد پابندی کو گزشتہ برس دسمبر میں اس وقت ختم کر دیا گیا تھا، جب پشاور کے ایک اسکول پر دہشت گردانہ حملے کے بعد جنگجوؤں کو سزا دینے کے لیے سزا پر عملدرآمد شروع کیا گیا تھا۔ اس اسکول پر حملے کے نتیجے میں 130 بچے بھی مارے گئے تھے۔ تب سے اب تک کم از کم 240 مجرمان کی سزائے موت پر عملدرآمد کیا جا چکا ہے لیکن ان میں سے دہشت گردی کے مجرمان کی تعداد انتہائی کم ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید