1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’پندرہ پاکستانی تارکینِ وطن کو بحری قزاقوں نے اغوا کر لیا‘

عدنان باچا، سوات
15 مئی 2017

پاکستان کے پندرہ نوجوانوں کو رومانیہ میں بحری قزاقوں نے اغواء کرلیا ہے، یہ تارکینِ وطن سمندری راستے سے غیر قانونی طور پر یورپ جا رہے تھے۔ اِغواء کئے گئے پندرہ افراد میں سے سات کا تعلق وادی سوات ہے۔

https://p.dw.com/p/2d0sm
Pakistani Entführt
اِغواء کئے گئے پندرہ افراد میں سے سات کا تعلق وادی سوات ہےتصویر: DW/A. Bacha

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے پندرہ افراد مبینہ طور پر بہتر مستقبل کی تلاش میں سات ماہ قبل ترکی گئے تھے۔ یہ لوگ ترکی سے اٹلی داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھےکہ رومانیہ میں بحری قزاقوں نے انہیں اغواء کرلیا۔ ان مغوی افراد میں سوات کے علاقہ برہ بانڈئی کا 22 سالہ رحمت علی بھی شامل ہیں۔ رحمت علی کے بڑے بھائی شاہ حسین نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بحری قزاق بار بار  اِن افراد کی رہائی کے لئے تاوان کی رقم کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ وہاں اُن پر تشدد کیا جا رہا ہے، حتیٰ کہ ان کی انگلیاں بھی توڑ دی گئی ہیں۔ شاہ حسین نے مزید بتایا، ’’ میرا چھوٹا بھائی یورپ جانے کی ضد کر رہا تھا اور آخر کار ایک ایجنٹ کے ذریعے اسے اِن پندرہ افراد کے گروپ میں شامل کیا گیا۔ اس مد میں ہم سے بھاری رقم بھی وصول کی گئی۔‘‘

سوات کے اغواء ہونے والے سات تارکینِ وطن  کے والدین اور رشتہ داروں نے پیر کے روز سوات میں اپنے پیاروں کی رہائی کے لئے ایک احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔ مظاہرے میں شریک 23 سالہ ہلال کی ماں سعیدہ بی بی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ میں نے اپنے بچے کو یورپ بھیجنے کے لئے متعدد لوگوں سے پیسے اکھٹے کئے اور ایجنٹ کو دے دیے۔ سعیدہ بی بی کے مطابق، ’’ آخری بار اپنے بیٹے سے رابطہ ہوا جب وہ ترکی میں تھا اور مزید پیسوں کا مطالبہ کر رہا تھا۔ ہم نے اِدھر اُدھر سے پھر پیسے جمع کئے اور بھیج دیے۔‘‘  انہوں نے مزید کہا کہ اب بحری قزاق بار بار فون کر کے اُن کی رہائی کےلئے پیسے مانگ رہے ہیں اور انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دے رہے ہیں۔

Pakistani Entführt
اغواء ہونے والے افراد کے رشتہ داروں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کے پیاروں کی رہائی میں ان کی مدد کی جائےتصویر: DW/A. Bacha

بحری قزاقوں نے ان پندرہ افراد کو دس دن قبل رومانیہ کے قریب اغواء کیا تھا جو براستہ سمندر اٹلی جانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان افراد میں سوات کے شمشیرعلی، رحمت علی، گوہر عالم، ہلا ل احمد ، عرفان اوربرکت علی شامل ہیں جبکہ باقی آٹھ افراد کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں سے ہے ۔

22 سالہ گوہر عالم کی بہن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اُس کے بھائی کا روزگار اچھا نہیں چل رہا تھا اور  وہ مایوس ہو گیا تھا جس کے باعث وہ یورپ جانا چاہتا تھا۔ گوہر عالم کی بہن کا کہنا تھا، ’’میری حکومت سے گزارش ہے کہ بحری قزاقوں سے ہمارے پیاروں کی رہائی میں ہماری مدد کریں۔‘‘

غیر قانونی طور پر ترکی تک رسائی کے لئے انسانی اسمگلر  پاکستانیوں سے بارہ سو ڈالر وصول کرتے ہیں، جبکہ ترکی سے آگے پہنچانے کے لئے متعدد بار پیسے دینا پڑتے ہیں۔ ترکی میں مقیم پاکستانی مہاجر اصغر علی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یورپ میں داخل ہونے کے لئے ترکی کو مین گیٹ وے مانا جاتا ہے جہاں ہر سال ہزاروں افراد جنوبی ایشیاء اور وسطی ایشیاء سے بہتر مستقبل کی تلاش میں آتے ہیں۔

Pakistani Entführt
تصویر: DW/A. Bacha

 اصغر علی کا کہنا تھا، ’’ میں خود بھی غیر قانونی طور پر ترکی آیا ہوں۔ ایک سال ہوگیا ہے کہ میں اٹلی جانے کی کوشش میں ہوں لیکن  ابھی تک کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ یہاں پر ہم جو خواب لے کر  آتے ہیں یا ہمیں دکھائے جاتے ہیں، حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔‘‘

بحری قزاقوں کے ہاتھوں اغواء کئے جانے والے افراد کے رشتہ داروں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کے پیاروں کی رہائی میں ان کی مدد کی جائے اور اُنہیں بحفاظت واپس پاکستان لایا جائے۔ تاہم اس حوالے جب پاکستانی امورِ خارجہ کے دفتر سے رابطہ کیا گیا  تو انہوں نے معاملے سے لاعلمی کا اظہار کیا۔