1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پندرہ کھیل حکومت کی سر پرستی میں

طارق سعید، لاہور19 جنوری 2009

حکومتِ پاکستان نےمستقبل میں صرف پندرہ منتخب کھیلوں کی سرپرستی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ فیصلہ پاکستان نے ایتھلیٹس کی عالمی سطح پر مسلسل غیر معیاری کارکردگی کے بعد کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/Gadt
پاکستانی ہاکی ٹیم نے منظور جو نیئر کی قیادت میں آخری بارانیس سو چوراسی میں لاس اینجلس میں اولمپک ٹائٹل اپنے نام کیا تھاتصویر: AP

ملک میں کھیلوں کو چلانے والے سب بڑے حکومتی ادارے پاکستان سپورٹس بورڈ نے فیفا فٹبال ہاؤس لاہور میں دو روز تک جاری رہنے والے اہم اجلاس میں عالمی اعزازت کی واپسی کے لیے جو ایکشن پلان تیار کےا ہے اس کے مطابق سرکاری سطح پر صرف پندرہ منتخب کھیلوں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی جن میں قومی کھیل ہاکی کے علاوہ،فٹبال ، اسکواش، ٹینس، ایتھلیٹکس ،جوڈو،کبڈی،کراٹے ،ٹیبل ٹینس، تائیکوانڈو، ویٹ لفٹنگ، ریسلنگ، ووشو، باکسنگ اور اسنوکر شامل ہیں۔

پاکستان اسپورٹس بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل سیدامیر حمزہ گیلانی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اس وقت چالیس کھیلوں کی فیڈریشنز کا اسپورٹس بورڈ سے الحاق ہے مگر مستقبل میں صرف انہی کھیلوں کی سرپرستی کی جائے گی جن سے عالمی مقابلوں میں میڈل جیتنے کی توقع ہے۔

امیر حمزہ گیلانی کا کہنا تھا کہ چالیس فیڈریشنز میں سرکاری فنڈز کی تقسیم کا کوئی فائدہ نہیں ہو رہا تھا بلکہ بعض ایسے بھی کھیل ہیں جن کی فیڈیشنز گرانٹ تو برابر حاصل کر رہی تھیں مگر وہ مقامی سطح پر مقابلوں کا انعقاد تک کرنا گوارہ نہ کرتی تھیں۔ پیسے کے ضیاع کی روک تھام کے لیے ہم نے کٹیگری کا طریقہ کار متعارف کرایا جس کے لیے کارکردگی کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابتدائی طور پر یہ تجربہ ایک سال کے لئے کیا جا رہا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے کھیلوں کا سالانہ بجٹ پینتیس کروڑ روپے مختص کیا گیا ہے مگر حیران کن طور پر ساٹھ فیصد بجٹ اسپورٹس بورڈ کے ملازمین کی تنخواہوں اور انفراسٹرکچر پر ہی خرچ ہو جاتا ہے اور باقی چالیس فیصد قسطوں کی صورت میں کھلاڑیوں ، ایونٹس کی تیاریوں اور فیڈیشنوں تک پہنچتا ہے۔

اسپورٹس بورڈ کی طرف سے سب سے زیادہ سالانہ گرانٹ پندرہ لاکھ روپے کی صورت میں پاکستان فٹبال فیڈیشن کو ملتی ہے۔ باکسنگ اور ایتھلیٹکس فیڈیشنوں کو بارہ بارہ لاکھ جبکہ ہاکی فیڈریشن کے حصے میں صرف آٹھ لاکھ روپے کی سرکاری اعانت آتی ہے۔

ایک زمانہ تھا کہ پاکستان کا ہاکی سمیت کئی کھیلوں میں طوطی بولتا تھا ۔نوّے کے عشرے میں پاکستان چار کھیلوں کرکٹ ، ہاکی ، اسکواش اور اسنوکر میں عالمی چمپئن تھا مگر اس کے بعد کی حکومتوں کی عدم دلچسی، فنڈز کی کمی اور منتظمین کے غیر پیشہ ورانہ رویّے کی وجہ سے تمام اعزازت ایک ایک کرکے چھن گئے۔ آج یہ عالم ہے کہ پاکستان کو اولمپکس میں طلائی تمغہ جیتے پچیس برس بیت چکے ہیں ۔ پاکستانی ہاکی ٹیم نے منظور جو نیئر کی قیادت میں آخری بار انیس سو چوراسی میں لاس اینجلس میں اولمپک ٹائٹل اپنے نام کیا تھا جبکہ دو ہزار دومیں باکسر مہراللہ نے آخری مرتبہ بوسان میں پاکستان کو ایشیائی گولڈ میڈل کا حق دار بنوایا تھا۔

اب حکومت کویقین ہے کہ مختص بجٹ منتخب کھیلوں پر خرچ کرنے سے اس سال دسمبر میں بنگلہ دیش میں ہونے والے جنوبی ایشا ئی کھیلوں (ساف گیمز) میں پاکستانی کھلاڑی عمدہ کاکردگی کا مظاہرہ کرسکیں گے۔