1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پولیس اور میڈیا پر وکلاء کا حملہ:کتنی سازش،کتنی حقیقت

30 جولائی 2009

لاہور کے وکلا کی طرف سے پولیس اور صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد صورت حال شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/J0T9
پاکستان میں صحافیوں پر تشدد کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیںتصویر: AP

تفصیلات کے مطابق بدھ کے روز ضلعی عدالت کے باہر چند وکلاء نے ایک پولیس اہلکار فقیر محمد کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا ۔اس پروہاں موجود ایک مقامی ٹی وی چینل کے کیمرہ مین نے اس واقعے کو اپنے کیمرے میں محفوظ کرلیا۔ اس فٹیج کے ٹیلی ویثرن پر نشر ہونے سے وکلاء مشتعل ہوگئے اور جمعرات کے روز درجنوں وکلاء نے مذکورہ ٹی وی چینل کے رپورٹر اور فوٹوگرافر کا عدالتی احاطے میں گھیراؤ کر لیا۔ تاہم سینئر وکلاء کی مداخلت سے یہ معاملہ وقتی طور پر رفع دفع ہو گیا، لیکن جب ٹی وی کیمرہ مین ناصر مسعود اپنے دفتر کی گاڑی پر سیشن کورٹ کے باہر سڑک پر آیا تو وکلاء نے سگنل پر کھڑی گاڑی سے نکال کر اسے مارنا شروع کر دیا۔ خون میں لت پت کیمرہ مین سے ٹی وی کیمرہ چھین کر زمین پر پٹخ دیا گیا۔

اس واقعے کے بعد صحافیوں کی مختلف تنظیموں کے ارکان ہائی کورٹ چوک میں اکٹھے ہوگئے ۔ انہوں نے وکلاء کی طرف سے صحافیوں پر تشدد کے خلاف احتجاج کیا۔ اس موقع پر مال روڈ پر کچھ دیر کے لئے ٹریفک معطل ہوگئی۔

لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس خواجہ محمد شریف نے صحافیوں سے ملاقات میں اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے پنجاب بار کونسل کے رہنماؤں کو اس واقعے کی تحقیقات کرکے ملزموں کے خلاف کارروائی کی ہدایت دی ہے۔

لاہور ہائی کورٹ میں سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن، لاہور ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن اور لاہور ڈسٹرکٹ بار ایسو سی ایشن کے رہنماؤں کا ایک مشترکہ ہنگامی اجلاس ہوا۔ اس اجلاس کے بعد جاری کئے جانے والے مشترکہ اعلامیے میں صحافیوں کے خلاف تشدد کے واقعات پر دکھ اور رنج کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ اس واقعے میں ملوث افراد وکلاء کے لئے بد نامی کا باعث بنے ہیں۔ مشترکہ اعلامیے میں اس واقعے میں ملوث افراد کی شدید مذمت کی گئی اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کا وعدہ بھی کیا گیا۔

اجلاس کے بعد ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے لاہور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر رانا ضیا عبدالرحمان کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ عدالتی احاطے سے باہر پیش آیا ہے اور ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ اس میں وکلاء ملوث ہیں بھی یا نہیں؟

لاہور ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن کی صدر جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ آمریت کی حمایتی قوتیں وکلاء تحریک کے دوران میڈیا اور وکلاء کے درمیان مثالی ہم آہنگی سے سخت خائف رہیں اور حالیہ واقعات ان کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی ایک بڑی سازش کا حصہ ہے۔

اُدھر صحافیوں کی تنظیم پنجاب یونین آف جرنلسٹس نے کہا ہے کہ اگر صحافیوں پر تشدد کرنے والوں کے خلاف 48 گھنٹوں میں کارروائی نہ کی گئی تو ہفتہ کے روز صوبے بھر میں شدید احتجاج کیا جائے گا۔

وکلاء کے حملے میں زخمی ہونے والے صحافی ناصر مسعود نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا نے عدلیہ کی آزادی کے لئے بھر پور جدوجہد کی ہے۔ انہوں نے اپیل کی کہ وہ اس واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔

پنجاب پولیس کے انسپکٹر جنرل طارق سلیم ڈوگر نے جمعرات کی شام ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس اہلکار پر وکلاء کا حملہ در اصل پولیس کے محکمے پرحملہ ہے۔ ان کے مطابق ضلعی عدالتیں وکلا سے ڈرتی ہیں، اس لئے یہ کیس لاہور ہائی کورٹ میں لے جایا جائے گا اور قانون کی بالا دستی کے لئے عدالتی جنگ لڑی جائے گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ کوئی شہری قانون سے بالا تر نہیں ہے۔ ’’چند وکلا اپنی تشدد آمیز کارروائیوں کے ذریعے قائد اعظم محمد علی جناح کے پیشے کو بدنام کر رہے ہیں۔‘‘

اس سے پہلے جمعرات کی صبح وکلاء نے صحافیوں کو سیشن کورٹ کے احاطے میں داخل ہونے سے روک دیا تھا ۔ قبل ازیں لاہور ہائی کورٹ میں منعقد ہونے والے پاکستان پیپلز پارٹی کی حمایت یافتہ تنظیم پیپلز لائیر فورم کے انتخابات کے موقعے پر بھی صحافیوں سے بد سلوکی کی گئی تھی۔

رپورٹ : تنویر شہزاد، لاہور

ادارت : عاطف توقیر