1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پول ڈانس سے مصری خواتین با اختیار بن رہی ہیں؟

عاطف توقیر
23 نومبر 2017

مصری معاشرہ خواتین کے حقوق کے اعتبار سے کوئی مثالی تصویر پیش نہیں کرتا اور یہاں پول ڈانس کو ’برا‘ سمجھا جاتا ہے مگر يہ رقص خواتین کی زندگیوں میں ’مثبت‘ تبدیلیوں کا باعث بن رہا ہے اور انہیں بااختیار بنا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/2o7bK
Ägypten Stangentanz
تصویر: DW/Karin El Minawi

منار المقدم پول کے گرد تیزی سے حرکت کر رہیں ہیں۔ وہ اس پر چڑھتی ہیں اور اونچی ایڑی والے جوتے سے پول کے گرد اپنی ٹانگیں لپیٹ کر اوندھے منہ لٹک رہی ہیں۔ لڑکیوں کو پول ڈانس سکھانے والی المقدم ایک مرتبہ پھر پول پر چڑھ کر اپنے دونوں پاؤں ہوا میں پھیلاتی ہیں، تو ساری کلاس تالیں بجانے لگتی ہے۔

ہیرا منڈی، رقص کی محفلوں سے جسم فروشی کا مرکز کیسے بنی؟ 

جنسی غلامی سے آزادی پانے والی لڑکیوں کا ’مسیحا‘

ممبئی کی کچی بستی سے نیویارک بیلے ڈانس اسکول تک

سات سال قبل المقدم نے پول ڈانس کا آغاز کیا تھا۔ ابتداء میں انہوں نے اسے بہ طور شوق لیا مگر اب یہ ان کا روزگار بھی ہے۔ انہوں نے مصر میں پہلا پول ڈانس اسٹوڈیو دارالحکومت قاہرہ میں سن 2013ء میں شروع کیا تھا۔ ایک قدامت پسند معاشرے میں ان کا یہ قدم غیرمعمولی ہمت کا آئینہ دار ہے کیوں کہ مصر میں رقص کی اس قسم کو ’بے شرمی‘ اور ’بے حیائی‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

مگر المقدم کے لیے یہ آزادی کے ایک احساس سے عبارت ہے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ جسمانی مشق کی ایک ایسی قسم ہے، جو آپ کو شہرت بھی دے سکتی ہے حالاں کہ یہ رقص مصر میں اب بھی فقط بند دروازوں کے پیچھے ہی ہوتا ہے۔

92 ملین آبادی والا مسلم اکثریتی ملک مصر غربت اور امارت اور آزادی اور قدامت پسندی، دونوں طرف کی انتہاؤں کو چھوتا نظر آتا ہے۔

مصر میں بیلی ڈانس جو پول ڈانس ہی کی طرح پرکشش اور جنسی حسیات کو ابھارنے سے عبارت ہے، سماج کا حصہ ہے۔ اس پر بھی کسی حد تک تنقید ہوتی ہے، مگر وہاں شادی بیاہ کے موقع پر رقص کی ایسی محافل عام بات ہے۔ مگر پول ڈانس کی بابت مصریوں کی رائے یکسر مختلف ہے۔ وہ اس رقص کو ریڈ لائٹ ایریاز یا ’سرخ بتی والے علاقوں (چکلوں) اور جسم فروشوں سے جوڑتے ہیں۔

المقدم بھی عام افراد میں اس پول ڈانس سے متعلق اس سوچ سے آگاہ ہیں، تاہم یہ برا تاثر اس 24 سالہ لڑکی کو روک نہیں سکتا۔ برطانیہ میں آرکیٹیکچر کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران ورزش کرتے ان کی رغبت پول ڈانس کی جانب بڑھی اور پھر مصر واپس لوٹ کر انہوں نے خواتین کے لیے پول فٹ مصر کے نام سے اسٹوڈیو قائم کر دیا۔ ابتدا میں خود ان کے والدین بھی ’دھچکے‘ کا شکار ہوئے، کیوں کہ انہیں خوف تھا کہ ’لوگ کیا کہیں گے‘۔

المقدم شاید اسی خیال سے فقط انہی خواتین کو، جو ان کی جانب سے کروائے جانے والے کورسز کے لیے باقاعدہ طور پر اپنا نام درج کرواتی ہیں، اپنے اسٹوڈیو میں مدعو کرتی ہیں اور یہی خواتین جانتی ہیں کہ اس اسٹوڈیو میں ہوتا کیا ہے۔

جرمنی میں فرانسیسی سنگت ناچ

المقدم کے مطابق، ’’لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ یہ خواتین کی ورزش کی جگہ ہے۔‘‘

المقدم نہیں چاہتیں کہ وہ غیرضروری طور پر اس رقص کی نمائش کرتی پھریں، جس سے لوگوں کے ’جذبات کو ٹھیس‘ پہنچے۔ اس سلسلے میں انہوں نے سخت ضوابط بنا رکھے ہیں، جو اس اسٹوڈیو کے دیگر استادوں پر بھی لاگو ہوتے ہیں۔ مگر تمام تر سخت ضوابط کے باوجود المقدم کی کلاس میں ’تل دھرنے کی جگہ نہیں۔‘