1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’پٹھان کوٹ حملے کی تحقیقات میں مکمل تعاون کی یقین دہانی‘

شکور رحیم، اسلام آباد5 جنوری 2016

پاکستانی وزیرِاعظم نے اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کو پٹھان کوٹ ایئر بیس پر حملے کی تحقیقات میں مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے۔ بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے پاکستان کو ’’قابل عمل‘‘ معلومات مہیا کی گئی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1HYEp
Pakistan Indischer Ministerpräsident Narendra Modi zu Besuch in Lahore
تصویر: picture-alliance/dpa/Press Information Bureau

منگل کو اسلام آباد میں وزیر اعظم ہاؤس کے ایک ترجمان کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے سے ٹیلی فون پر بات کی۔ بیان کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف نے حملے پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد پاکستان اور بھارت کے درمیان امن عمل کو پٹری سے اتارنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ بھارت کی جانب سے پٹھان کوٹ حملے سے متعلق جو بھی معلومات فراہم کی جائیں گی ان پر تفصیلی تحقیقات کی جائیں گی۔ ترجمان کے مطابق دونوں وزارئے اعظم نے دہشت گردی کا مل کر مقابلہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔

پاکستان کے سابق وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں کو اس مرحلے پر صورتحال کو کشیدہ ہونے سے بچانا ہوگا۔ پارلیمنت ہاؤس کے باہر ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’دونوں حکومتوں کو دہشت گردی کے ایک قابل مذمت واقعے کی وجہ سے اپنے تعلقات کو کسی صورت خراب نہیں ہونے دینا چاہیے۔ دہشت گردوں کو ان کے مقاصد حاصل نہیں ہونے چاہیے۔ دونوں حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے رسمی چینلز کو استعما ل کرتے ہوئے اس مسئلے کا حل تلاش کریں اور اس سلسلے میں ایک دوسرے سے تعاون کریں۔‘‘

خیال رہے کہ پٹھان کوٹ حملے کی ذمہ داری بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی عسکریت پسند تنظیموں کے اتحاد پر مشتمل متحدہ جہاد کونسل نامی کی ایک تنظیم نے قبول کی تھی۔ تاہم بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے اس حملے کا ذمہ دار پاکستان کی ایک شدت پسند تنظیم جیش محمد کو ٹھہرایا گیا تھا۔

بھارتی حکام کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے پاکستان کو "عمل کے لائق" معلومات مہیا کی گئی ہیں۔ اس پر گزشتہ روز پاکستانی دفترِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ پٹھان کوٹ حملے کے تناظر میں بھارتی حکومت سے ملنے والی معلومات پر کام کیا جا رہا ہے۔ بیان کے مطابق پاکستان خطے میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بھارتی حکومت کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’اپنے وعدے کے مطابق مسئلے کے حل کے لیے پاکستانی حکومت بھارتی حکومت سے مکمل رابطے میں ہے اور ان کی جانب سے فراہم کی جانے والی معلومات پر کام کر رہی ہے۔‘‘

پاکستان اور بھارت کے درمیان اس حالیہ تناؤ کے بعد بعض حلقوں نے اس ماہ کی چودہ اور پندرہ تاریخ کو اسلام آباد میں دونوں ممالک کے خارجہ سیکرٹریوں کے درمیان ہونیوالی بات چیت کے انعقاد پر بھی سوالیہ نشانات اٹھانا شروع کر دیے ہیں۔ اس بارے میں گزشتہ روز پاکستانی دفتر خارجہ سے جاری ہونیوالے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ دونوں ممالک کو مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنے کا عزم دکھانا ہوگا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پٹھان کوٹ پر حملےکے بعد پاکستان کی طرف سے سرکاری سطح پر جو ردعمل سامنے آیا ہے اس سے توقع کی جاتی ہے کہ پاک بھارت سیکرٹری خارجہ سیکرٹریوں کی بات چیت تعطل کا شکار نہیں ہو گی۔

شاہ محمود قریشی کے مطابق، ’’بات چیت جاری رکھنا ضروری ہے ورنہ ہم نے ماضی میں بھی دیکھا کہ طویل عرصے تک بات چیت میں التوا کے بعد آخر دونوں ملکوں کو میز پر بیٹھنا پڑتا ہے تو پھر اس میں جتنا وقفہ آئے گا وہ نقصان دہ ہے۔ ہاں کوئی بھی بات ہے اس کو بھی ڈسکس کر لیں (خارجہ سیکرٹریوں) ملاقات میں۔‘‘

پاکستان اور بھارت نے دسمبر میں دوطرفہ جامع مذاکرات کی بحالی کا اعلان کیا تھا۔ یہ اعلان بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت اور پاکستانی حکام سے ملاقاتوں کے بعد پاکستانی مشیر برائے خارجہ امور کے ساتھ ایک پریس کاننفرنس میں کیا تھا۔ بھارتی وزیر کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اس سال سمتبر میں جنوب ایشیائی ممالک کی تنظیم سارک کے سربراہ اجلاس میں شرکت کے لئے پاکستان آئیں گے۔

گزشتہ سال کے اختتام پر بھارتی وزیر اعظم نے کابل سے واپسی پر پاکستانی شہر لاہور میں غیر متوقع قیام کیا اور پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے گھر پر ان سے غیر رسمی ملاقات بھی کی تھی۔ اس موقع کو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں تاریخی اہمیت کا حامل قرار دیا جارہا تھا کیونکہ یہ گزشتہ سولہ برسوں میں کسی بھارتی وزیر اعظم کا پہلا پاکستان کا دورہ تھا۔ تاہم پٹھان کوٹ کے حملے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات ایک بار پھر خراب ہونے کا خدشہ ہے۔