1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پکتیا کا شہر جانی خیل، طالبان کے بعد پھر افغان دستوں کا قبضہ

مقبول ملک ڈی پی اے
25 اگست 2017

افغانستان کے جنوب مشرقی صوبے پکتیا کا شہر جانی خیل جمعہ پچیس اگست کو طالبان کے بعد پھر افغان دستوں کے قبضے میں آ گیا۔ اس شہر پر قبضے اور طالبان جنگجوؤں کو پسپا کرنے کے لیے تازہ خونریز لڑائی قریب دو ہفتے تک جاری رہی۔

https://p.dw.com/p/2ipRa
تصویر: Imago/Xinhua/R. Safi

افغان دارالحکومت کابل سے ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق ہندو کش کی اس ریاست میں سلامتی کی صورت حال کتنی مخدوش ہے اور کوئی بھی دیرپا اسٹریٹیجک پیش گوئی کرنا کتنا مشکل ہے، اس کا اندازہ جانی خیل میں حالیہ ہلاکت خیز واقعات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

صوبے پکتیا کا یہ شہر، جو ایک ضلعی صدر مقام بھی ہے، جولائی کے اختتام سے اب تک چار مرتبہ ان حالات سے گزر چکا ہے کہ وہاں پر قابض مسلح طاقت کو جنگی شکست ہو گئی۔ افغان حکام نے جمعہ پچیس اگست کے روز کابل میں بتایا کہ ملکی سکیورٹی دستوں نے جانی خیل کو ایک بار پھر طالبان عسکریت پسندوں کے قبضے سے چھڑا لیا ہے۔

افغانستان میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کا صفایا کر دیں گے، امریکی جنرل

پاکستان نے بڑی قربانیاں دی ہیں: ٹرمپ کی تنقید پر چین کا جواب

ٹرمپ کی افغان پالیسی پاکستان میں زیرِ بحث

پکتیا کی صوبائی حکومت کے ترجمان عبداللہ حسرت نے ڈی پی اے کو بتایا کہ کابل حکومت کے دستوں نے تقریباﹰ دو ہفتوں تک جاری رہنے والی لڑائی کے بعد جانی خیل پر اپنا ’تازہ ترین دوبارہ قبضہ‘ جمعے کی صبح مکمل کر لیا۔

Karte Afghanistan Provinz Paktia Englisch
تصویر: DW

قریب 40 ہزارکی آبادی والے اس افغان شہر کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ جانی خیل پر کس کا قبضہ ہے، یہ حقیقت پچھلے ایک ماہ کے دوران چار مرتبہ بدل چکی ہے۔ اس سال جولائی کے آخر تک جانی خیل افغان دستوں ہی کے قبضے میں تھا لیکن پھر طالبان نے ایک بڑے اور مربوط حملے کے بعد اس شہر پر پہلی بار قبضہ کر لیا تھا۔

اس شہر کے اپنے ہاتھ سے نکل جانے کے بعد افغان حکومتی دستے مسلسل کوششیں کر رہے تھے کہ وہ دوبارہ جانی خیل پر قبضہ کر لیں۔ اپنی ان مسلح کوششوں میں وہ چار اگست کو کامیاب ہو بھی گئے تھے، جب طالبان کو اس شہر سے نکال دیا گیا تھا اور جانی خیل پھر حکومتی کنٹرول میں آ گیا تھا۔

کابل امریکی امداد کو ’بلینک چیک‘ نہ سمجھے، ٹرمپ

کیا پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں؟

طالبان اور داعش نے درجنوں افغان شہری قتل کر دیے

اپنی اس شکست کے محض چھ روز بعد دس اگست کے دن طالبان عسکریت پسندوں نے سکیورٹی دستوں کو پسپا کر کے جانی خیل کو دوبارہ اپنے کنٹرول میں لے لیا تھا۔ اس بار اس شہر پر طالبان کا کنٹرول قریب دو ہفتے تک جاری رہا اور 25 اگست کی صبح سرکاری فورسز نے ایک بار پھر طالبان کو شکست دے کر اس شہر کو حکومتی عمل داری میں  لے لیا۔

پکتیا کے صوبائی حکومتی ترجمان عبداللہ حسرت کے مطابق اس تازہ ترین عسکری کامیابی میں افغان دستوں کو ملکی فضائیہ اور امریکی ایئر فورس کی طرف سے حملوں کی صورت میں اضافی مدد بھی حاصل رہی۔ حسرت نے بتایا کہ جانی خیل پر اپنے آج ختم ہو جانے والے عسکری قبضے کے دوران طالبان عسکریت پسندوں نے شہر میں کئی جگہوں پر ’بہت زیادہ بارودی سرنگیں بھی بچھا دی تھیں، جن کی وجہ سے اس آپریشن کی کامیابی کی رفتار کافی سست ہو گئی تھی‘۔

افغانستان میں مزید امریکی فوجی قبول نہیں، حکمت یار

امداد کے بدلے افغانستان کے قدرتی وسائل سے حصہ چاہیے، ٹرمپ

ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ اس سال موسم بہار میں ہر سال کی طرح اپنے حملوں میں بہت تیزی لے آنے والے طالبان جنگجو ملک بھر میں بہت سے ضلعی صدر مقامات پر اپنی مسلح کارروائیوں میں شدت لا چکے ہیں۔  اس دوران انہوں نے آٹھ ہفتوں کے دوران کم از کم نو اضلاع پر بڑے حملے کیے اور ان میں سے چار اضلاع کو اپنے کنٹرول میں بھی لے لیا۔ تاہم اکثر واقعات میں طالبان کی یہ عسکری کامیابیاں قلیل المدتی ثابت ہوئیں۔

خودکش بمبار کیسے تیار کیے جاتے ہیں؟