1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پہاڑی و ميدانی علاقوں سے گھرے افغانستان میں ’بیچ فٹ بال‘

محمد علی خان، نیوز ایجنسی
13 ستمبر 2017

ايک پروگرام کی مدد سے افغانستان ميں بيچ فٹ بال کا کھيل تيزی سے مقبول ہو رہا ہے۔ اس پروگرام کی بنیاد چھ ماہ پہلے رکھی گئی تھی اور اس کا مقصد جنگ زدہ اس ملک میں فٹ بال کے بہترین کھلاڑيوں کی تلاش ہے۔

https://p.dw.com/p/2jt9X
Local hero Zabihullah Majidi in Kunduz Afghanistan Fußball
تصویر: DW/M. Saber Yosofi

کم عمر بچے، جن کی عمریں آٹھ برس کے لگ بھگ ہیں، ریئل میڈرڈ اور بارسلونا کے رنگوں والی ٹی شرٹس پہنے خوشی سے کھیلتے ہوئے بال کو ادھر سے ادھر پھینک رہے ہیں۔ ايسے مناظر افغان دارالحکومت کابل کے غازی اسٹیڈیم ميں اکثر دکھائی ديتے ہيں۔ آج يہ ميدان ايسا منظر نامہ پيش کرتا ہے جبکہ ايک وقت تھا کہ اسی اسٹیڈیم نے طالبان کی حکمرانی کا سخت دور بھی ديکھا۔

لیکن اکثر افغان نوجوان غازی اسٹيڈيم ميں بیچ فٹ بال یعنی ساحل سمندر پر کھیلی جانے والی فٹ بال  میں مشغول دکھائی ديتے ہیں۔ وہاں کھيلنے والے اکثریتی بچوں نے کبھی بھی ساحل سمندر نہیں دیکھا۔ ’’مجھے اس پروگرام میں شمولیت سے قبل بیچ فٹ بال کے بارے میں کوئی آگہی نہیں تھی۔ میں کبھی ساحل سمندر نہیں گیا۔‘‘ يہ الفاظ ہيں چودہ سالہ مدثر یوسف زئی کے، جس نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے مزيد کہا اس کے لیے يہ مکمل طور پر ایک نیا احساس اور تجربہ ہے۔ يوسف زئی کے مطابق، ’’ ہمیں یہاں بہت سارےمسائل درپیش ہیں۔ ہم دھول مٹی اور پتھروں پر کھیلتے ہیں، ہمارے گول پر نیٹ نہیں ہے مگر کیونکہ مجھے اس کھیل  سے جنون کی حد تک محبت  ہے، اس لیے میں یہ کھیلنا پسندکرتا ہوں۔‘‘

یوسف زئی ان درجنوں نوجوانوں میں سے ایک ہے جو تیزی سے بڑھتے ہوئے بیچ فٹ بال کے تربیتی پروگرام کا حصہ ہے۔ اس پروگرام کی بنیاد چھ ماہ پہلے رکھی گئی تھی۔ اس کا مقصد جنگ زدہ افغانستان میں بیچ فٹ بال میں بہترین صلاحیت کے جوہر دکھانے والے نوجوانوں کی تلاش ہے۔

اس منصوبے کی بنیاد ’حضرت گل باران‘ نے رکھی ہے، جو افغانستان کی قومی بیچ فٹ بال ٹیم کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ تمام تر سہولیات اور ساحلی ریت کی کمی کے باوجود ان کی ٹیم  ایشیا میں دسویں نمبر پر جب کہ عالمی سطح پر باون ويں نمبر پر ہے۔

اٹھائیس سالہ باران نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے بتایا، ’’جب پہلی دفعہ میں يہ پروگرام شروع کر رہا تھا تو لوگ بہت حیران تھے۔ وہ کہتے تھےکے تم ان بچوں کو سمندر کے کنارے فٹ بال کھیلنے کے ليے کس طرح تیار کر سکتے ہو، ان بچوں کو ساحل سمندر کا اندازاہ ہی نہیں ہے؟‘‘ لیکن باران کو اس سلسلے ميں کوئی مسئلہ نہیں ہے کے نوجوانوں کو کس طرح اس بیچ فٹ بال کے تربیتی پروگرام کی جانب متوجہ کريں۔ ان کے مطابق فٹ بال  بہت مقبول کھیل ہے۔ افغانستان میں بچے گرد آلود سڑکوں، بازاروں اور اسکولوں میں فٹ بال کھیلتے نظر آتے ہیں۔ باران نے بتایا تقریبا دو سو بچے اس تربیتی پروگرام کا حصہ ہیں جو بہت غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ بچوں کوکابل غاز ی اسٹیڈیم میں ہفتے میں تین بار اس کھیل کی  تربیت دی جا تی ہے۔

افغانستان میں بيچ فٹ بال کھلنے کے رجحان میں اضافہ سن دو ہزار تیرہ میں اس وقت ہوا، جب افغانستان کی قومی بیچ فٹ بال ٹیم اپنا پہلا بین الاقوامی میچ  قطر کے مد مقابل کھیل رہی تھی اور کھیل میں تمام تر  مشکلات کا مقابلہ کر تے ہوئے یہ ٹیم میچ جیت گئی۔

افغانستان بیچ فٹ بال کمیٹی کے ڈائریکٹر روح اللہ رستاگر کے بقول بہتر تعاون اور سہولیات میسر ہوں تو بہت جلد افغانستان کی بیچ فٹ بال ٹیم دنیا کی سر فہرست ٹیموں میں شمار ہو گی۔

واضح رہے کہ سن 1996 سے 2001 تک طالبان کے دور حکومت ميں جب لوگ فٹ بال کا کھیل دیکھنے کے لیے اس میدان آیا کر تے تھے، تو کھیل سے قبل یا کھیل میں وقفے کے دوران تماشائیوں کے سامنے مجرمان کو پھانسی اور دیگر سزایں دی جاتی تھیں۔

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید