1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنگ کے باعث بیوگی کے بعد فوج، حکام کے ہاتھوں جنسی استحصال

مقبول ملک
15 فروری 2017

سری لنکا کی خانہ جنگی کے دوران بیوہ ہو جانے والی تامل خواتین کو اب ملکی فوج اور مقامی حکام کے ہاتھوں وسیع تر جنسی استحصال کا سامنا ہے۔ یہ بات قومی وحدت اور مصالحت کے دفتر کی سربراہ اور ملک کی سابق خاتون صدر نے بتائی۔

https://p.dw.com/p/2XbxH
Sri Lanka Kriegswitwen
تصویر: Getty Images/AFP/L. Wanniarachchi

سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو سے بدھ پندرہ فروری کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق جنوبی ایشیا کی اس جزیرہ ریاست میں تامل علیحدگی پسندی کے مسئلے کی وجہ سے عشروں تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے بعد ملکی حکومت نے قومی اتحاد اور مصالحت کا جو مرکزی دفتر قائم کر رکھا ہے، اس کی سربراہ سری لنکا کی سابق خاتون صدر چندریکا کماراٹنگا ہیں۔

پاکستان سری لنکا کے ساتھ قریبی فوجی تعلقات کا خواہشمند

کولمبو ميں سيلاب، پانچ لاکھ شہری بے گھر

چندریکا کماراٹنگا نے آج کولمبو میں غیر ملکی صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تامل نسل کی وہ سری لنکن خواتین، جو خانہ جنگی کے دوران بیوہ ہو گئی تھیں، انہیں اب نہ صرف مقامی اہلکاروں کی وجہ سے جنسی زیادتیوں کا سامنا ہے بلکہ ان کے اس استحصال میں ملکی فوج کے اہلکار بھی شامل ہیں۔

سابق ملکی صدر کماراٹنگا نے کہا، ’’وہ ہزارہا تامل خواتین جو 37 سالہ مسلح تنازعے کے دوران یا اس کے اختتامی سالوں میں بیوہ ہو گئی تھیں، وہ جب مقامی دفتروں میں اپنے معمول کے سرکاری کام کروانے جاتی ہیں، تو حکام ان سے اکثر معاوضے کے طور پر جنسی تعلقات کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘‘

Flucht von Zivilisten in Sri Lanka
سری لنکا کی فوج پر تامل خانہ جنگی کے آخری مہینوں میں شدید نوعیت کے جنگی جرائم کے الزامات بھی لگائے جاتے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

سری لنکا کے قومی وحدت اور مصالحت کے ملکی دفتر کی خاتون سربراہ نے غیر ملکی نامہ نگاروں کو بتایا، ’’تامل علاقوں میں ابھی تک حکام کی طرف سے ان مجبور خواتین کا جنسی استحصال کیا جا رہا ہے، خود تامل حکام کی طرف سے بھی اور دیہات میں بہت نچلی سطح کے اہلکاروں کی طرف سے بھی۔‘‘

چندریکا کماراٹنگا نے کہا، ’’کسی ایک چھوٹے سے سرکاری کاغذ پر دستخط کروانے کے لیے بھی ان بیوہ خواتین کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ ایسے افراد میں ملکی فوج کے اہلکار بھی شامل ہیں، جو ایسی جنسی زیادتیوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔‘‘

Sri Lanka ehemalige Präsidentin Chandrika Kumaratunga
سری لنکا کی سابق خاتون صدر چندریکا کماراٹنگاتصویر: picture-alliance/AP/Gemunu Amarasinghe

کماراٹنگا کے بارے میں یہ بات بھی اہم ہے کہ جب وہ سری لنکا کی صدر تھیں، تو تامل مسلح تنازعے کے نقطہ عروج پر تامل ٹائیگرز کی طرف سے کیے جانے والے ایک خود کش بم حملے میں ان کی اپنی بھی ایک آنکھ ضائع ہو گئی تھی۔

اس تناظر میں ملک کی سابق خاتون صدر نے کہا، ’خواتین کو ایسے مظالم سے بچانے اور ان کے ایسی زیادتیوں کا شکار ہونے کے امکانات کو کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کی معاشی حالت بہتر بنائی جائے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ جب خواتین اپنی آمدنی کے ذرائع کی خود ذمے دار ہوں تو ان میں اپنی طاقت کا ایک ایسا جذبہ جنم لیتا ہے، جو انہیں تحفظ کا احساس دلاتا ہے اور یوں ان کا جنسی یا کسی بھی دوسری طرح کا استحصال کیے جانے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔

چندریکا کماراٹنگا نے مزید کہا کہ جنسی استحصال کا شکار ہونے والی ایسی تامل بیوہ خواتین اس وقت بڑے ذہنی دھچکے کی کیفیت میں ہیں اور انہیں نفسیاتی رہنمائی کی ضرورت ہے تاہم مقامی سطح پر ایسے نفسیاتی ماہرین کی بھی بہت کمی ہے، جو ایسی مظلوم خواتین کی مدد کر سکیں۔