1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پیرس حملوں کے پہلے حملہ آور کی شناخت

عابد حسین15 نومبر 2015

جمعے کی شام فرانسیسی دارالحکومت کے مختلف مقامات پر کیے جانے والے حملوں میں شریک ایک جہادی کی شناخت کر لی گئی ہے۔ پولیس کی مختلف ٹیمیں بقیہ حملہ آوروں کا کھوج لگانے کی کوشش میں ہیں۔

https://p.dw.com/p/1H61R
کُرکوران کی بستی میں تعمیر کی گئی مسجدتصویر: cc-by-sa/Cyrilb1881

فرانسیسی پولیس کے مطابق جس حملہ آور کی شناخت کی گئی ہے، اُس کا نام عمر اسماعیل مصطفائی ہے۔ انتیس برس کا یہ نوجوان پیرس کی ایک نواحی بستی میں پیدا ہوا تھا۔ جمعے کی شام کو پیرس میں ہونے والے حملوں کی تفتیش میں بین الاقوامی تفتیش کار بھی شامل ہیں۔ ان حملوں کی ذمہ داری دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے قبول کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ یہ حملے کنسرٹ ہال، ریستوران ، بارز اور ایک فٹ بال اسٹیڈیم پر کیے گئے تھے۔

حملہ آور عمر اسماعیل مصطفائی بیٹاکلاں کنسرٹ ہال پر فائرنگ اور خود کش حملے میں شریک تھا۔ جائے واردات سے ملنے والی ایک انگلی سے اُس کی شناخت کی گئی ہے۔ پیرس پر کیے گئے حملوں سے سب سے زیادہ ہلاکتیں بیٹاکلاں کے کنسرٹ ہال میں ہوئی تھیں جو اسی سے زائد تھیں۔ مصطفائی اکیس نومبر سن 1985کو پیرس کی خاصی غریب نواحی بستی کُرکوران میں پیدا ہوا تھا۔ اُس کا مجرمانہ ریکارڈ پولیس کے پاس ہے لیکن وہ کبھی بھی جیل نہیں گیا تھا۔ اُس نے سن 2004 سے سن 2010 کے درمیان کم از کم آٹھ مجرمانہ وارداتیں کی تھیں۔

Frankreich Terroranschläge Polizei
فرانسیسی پولیس حملہ آوروں کا کھوج لگانے میں مصروف ہےتصویر: picture-alliance/dpa/G. Horcajuelo

پیرس کے پراسیکیوٹر فرانسوا امولیں کا کہنا ہے کہ مصطفائی میں بنیاد پرستانہ رجحانات کی نشان دہی سن 2010 میں ہوئی تھی لیکن اُس کے کسی جہادی نیٹ ورک سے تعلق کے بارے میں کوئی ثبوط نہیں ملا تھا نہ ہی وہ جیل گیا تھا۔ لیکن اُس پر نگاہ رکھی جا رہی تھی۔ تفتیش کار اِس بارے میں بھی چھان بین کر رہے ہیں کہ کیا مصطفائی نے جہادی تربیت اور دوسری مسلح سرگرمیوں میں شرکت کے لیے شورش زدہ ملک شام کا کبھی رُخ کیا تھا۔ اِس کے والد اور چونتیس سالہ بڑے بھائی کو پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ کل ہفتے کی شام پولیس نے کُرکوران میں اُس کے گھر کی تلاشی بھی لی تھی۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے اُس کے بھائی نے کہا کہ پیرس پر حملوں کی تفصیلات اُس نے ٹیلی وژن پر دیکھی تھیں اور یہ سب پاگل پن کا مظاہرہ تھا۔ اِس بات چیت کے فوری بعد ہی اُسے پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا۔ مصطفائی کے چار بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کئی برس سے اس کے خاندان نے مصطفائی کے ساتھ قطع تعلق کر رکھا تھا۔ پولیس کو اُس کے بھائی اور والد نے اُس کی جہادی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا بتایا ہے۔ اُس کے بھائی نے اِس شناخت کے بعد پولیس سے خود رابطہ کیا تھا۔ اُس نے یہ بھی بتایا کہ مصطفائی اپنی فیملی اور چھوٹی بیٹی کے ساتھ الجزائرگیا تھا۔