1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پیرس حملے: تحقیقاتی عمل میں تیزی، مشتبہ کار سے اسلحہ برآمد

عاطف بلوچ15 نومبر 2015

پیرس حملوں کی تحقیقات میں فرانس اور بیلجیم سے متعدد مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ حملہ آوروں کی تین ٹیموں نے ان خون ریز کارروائیوں میں حصہ لیا جب کہ مشتبہ کار سے اسلحہ برآمد کر لیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1H6ED
Belgien Brüssel Molenbeek Festnahme Verdächtiger
تصویر: Reuters/RTL

جمعے کی رات پیرس میں ہونے والے حملوں میں ہلاک شدگان کی تعداد 129 ہو چکی ہے جب کہ تین سو سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ طبی حکام نے بتایا ہے کہ زخمیوں میں سے اسّی کی حالت نازک ہے۔ ان حملوں کے بعد جہاں عالمی برادری فرانس سے بھرپور یک جہتی کا اظہار کر رہی ہے، وہیں ان حملوں میں ملوث یا منصوبہ ساز افراد کی گرفتاری کے لیے یورپی سکیورٹی ادارے بھی سرگرم ہو چکے ہیں۔

اتوار کے دن فرانسیسی حکام نے بتایا ہے کہ فرانس اور بیلجیم میں مارے گئے مختلف چھاپوں میں متعدد مشتبہ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ بیلجیم میں مجموعی طور پر سات مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، جن پر شک کہ وہ پیرس حملوں میں کسی طرح ملوث ہو سکتے ہیں۔

خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے بیلجیم کی نیوز ایجنسی Belga کے حوالے سے بتایا ہے کہ ان حملوں کے دوران ہلاک ہونے والے دو جنگ جو بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں رہ چکے تھے۔ یہ دونوں فرانس کے شہری بتائے گئے ہیں۔ فرانسیسی حکام نے یہ بھی بتایا ہے کہ حملوں کے دوران ہلاک ہونے والا ایک حملہ آور غالبا شامی مہاجر تھا۔ یونانی حکام نے تصدیق کی ہے کہ اس شناخت کا ایک شخص لیروس میں بطور شامی مہاجر رجسٹرڈ کیا گیا تھا تاہم یہ واضح نہیں کہ آیا وہ حملے میں ملوث تھا۔ اس حوالے سے تحقیقاتی عمل جاری ہے۔

اتوار کے دن ہی فرانسیسی استغاثہ نے بتایا کہ پیرس سے سیاہ رنگ کی Seat کار برآمد کر لی گئی ہے، جو شاید حملہ آوروں نے استعمال کی تھی۔ ایسا امکان ہے کہ حملہ آور اسی کار میں سوار ہو کر ایک ریستوان پر حملہ آور ہوئے تھے۔ اس کار سے متعدد کلاشنکوفیں بھی برآمد ہوئی ہیں۔ یوں ایسا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پیرس کے ایک ریستواں پر حملہ کرنے والے چند جہادی فرار ہونے میں بھی کامیاب ہو گئے ہیں۔

خبر رساں اداروں کے مطابق سکیورٹی اہل کار فرانس کے علاوہ پیرس میں بھی مختلف مقامات پر چھاپے مار رہے ہیں۔ امریکا اور جرمنی نے بھی پیرس حکومت کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اس تحقیقاتی عمل میں مکمل معاونت فراہم کریں گے۔ عراق و شام میں فعال انتہا پسند گروپ داعش نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے جب کہ فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ کے مطابق جہادی ان کے ملک کے خلاف جنگی کارروائی کی مرتکب ہوئے ہیں۔ انہوں نے بھی کہا ہے کہ ان حملوں کے لیے داعش ہی ذمہ دار ہے۔

Frankreich Paris Terroranschläge Trauer
پیرس سمیت دیگر کئی ممالک میں یادگاری تقریبات کا انعقاد بھی کیا جا رہا ہےتصویر: Getty Images/AFP/M. Medina

دوسری طرف پیرس میں ان بہیمانہ حملوں میں ہلاک ہو جانے ہونے والوں کی شناخت کا عمل جاری ہے۔ فرانسیسی وزیر اعظم نے اتوار کے دن بتایا کہ زیاہ تر لاشوں کی شناخت کا عمل مکمل ہو چکا ہے جب کہ آئندہ چند گھنٹوں کے دوران تمام ہلاک شدگان کی شناخت ہو جانا چاہیے۔ جرمن حکومت نے کہا ہے کہ ہلاک شدگان میں ایک جرمن باشندہ بھی شامل ہے۔

پیرس حملوں کے بعد فرانسیسی صدر اولانڈ نے ملک بھر میں ہنگامی حالت نافذ کرتے ہوئے ملکی سرحدوں کو بند کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ دریں اثناء فرانس میں تین روزہ سرکاری سوگ بھی منایا جا رہا ہے۔ عالمی برداری نے اس مشکل وقت میں فرانس کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا ہے۔ پیرس حملوں میں ہلاک ہو جانے والے افراد کی یاد میں دنیا بھر کے متعدد شہروں میں خصوصی یادگاری تقریبات کا اہتمام بھی کیا جا رہا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید