1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چار سالہ مہاجر بچے کا اس کی ماں سے ملاپ

عاطف توقیر
14 نومبر 2017

آئیوری کوسٹ سے تعلق رکھنے والا ایک چار سالہ مہاجر بچہ پیر کے روز سات ماہ بعد دوبارہ اپنی ماں کی بانہوں میں پہنچ گیا۔

https://p.dw.com/p/2naod
Kinder von Flüchtlingen spielen Reporter
تصویر: Getty Images/AFP/J. Klamar

ویمن چیریٹی نامی امدادی تنظیم کے مطابق دو مختلف کشتیوں کے ذریعے اسپین پہنچنے والے یہ ماں بچہ آخرکار پیر کے روز دوبارہ مل پائے۔

اس بچے کی ماں 33 سالہ باہومو توتوپا رواں برس اپریل میں ایک ربڑ کی کشتی کے ذریعے جنوبی ہسپانوی ساحل پر پہنچی تھی، جب کہ اس کا بچہ عبدالرحمان اس سے ایک ماہ قبل اپنی خالہ کے ہم راہ ہسپانوی علاقے میلیلا پر پہنچا تھا۔

یورپ پہنچنے کی خواہش تینتیس ہزار سے زائد مہاجرین کو نگل گئی

جب برلن پولیس نے نوجوان مہاجر لڑکی کی تعریف کی

افغان پناہ گزین جرمن لڑکی کے قتل پر پشیماں

توتوپا کو اجازت نہیں تھی کہ وہ اپنے بچے سے کوئی رابطہ کر سکے جب کہ اس بچے کو میلیلا میں بچوں کے تحفظ کے ادارے کی زیرنگرانی رکھا گیا تھا۔ اس بچے سے کسی رابطے کے لیے اس خاتون کو ثابت یہ کرنا تھا کہ وہ واقعی طور پر اس کی ماں ہے۔

اس سلسلے میں ویمنس لنک نامی قانونی مدد فراہم کرنے والی تنظیم نے ماں کو بچے سے ملانے کی سبیل نکالی۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق توتوپا اور میلیلا میں اس کے بچے کا ڈی این اے معائنہ کیا گیا، جس سے یہ بات واضح ہوئی کہ بچہ توتوپا ہی کا ہے۔ اس کے بعد اس بچے کو خيريس ڈے لا فرنٹیرا کے علاقے میں مقیم توتوپا کے پاس پہنچا دیا گیا۔

ویمن لنک نے اس سلسلے میں کئی مرتبہ ہسپانوی حکام کو درخواستیں دیں کہ توتوپا کو اپنے بیٹے سے رابطے کی اجازت دی جائے، مگر ہسپانوی حکام نے اس پر کوئی رد عمل ظاہر نہ کیا۔ آخرکار اس امدادی تنظیم کو یورپی عدالت برائے انسانی حقوق کو درخواست دینا پڑی۔

اسٹراس برگ میں قائم اس عدالت نے 19 اکتوبر کو ہسپانوی حکام کو احکامات دیے کہ وہ ڈی این اے کے نتائج آنے سے قبل بھی عبوری طور پر ذاتی ملاقات یا فون رابطے کا اہتمام کرے کہ ماں اور بیٹے کے درمیان بات ہو سکے۔ اکتوبر میں اس امدادی تنظیم کی جانب سے توتوپا کی ایک انتہائی جذباتی ویڈیو جاری کی گئی تھی جس میں اس ماں کا کہنا تھا، ’’مجھے اپنا بیٹا چاہیے۔ یہ کسی بچے کے لیے آسان نہیں ہے کہ اس سے اس کی ماں چھین لی جائے۔‘‘

مہاجرین کی ’جنگل بستی‘ خالی، اب کیا ہو گا؟

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2016ء میں 16 سو سے زائد بچے غیرقانونی طور پر اسپین پہنچے ہیں، جن میں نصف تعداد شامی بچوں کی ہے۔ گزشتہ برس اسپین پہنچنے والے مہاجرین کی مجموعی تعداد کا یہ 12 فیصد بنتا ہے۔